ایشیا میں گھریلو ملازمین میں سے صرف 3 فیصد کو ہفتے میں ایک چھٹی کی سہولت حاصل ہے جبکہ 76 فیصد گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو زچگی کے دوران بھی چھٹیاں یا کوئی مالی مراعات مہیا نہیں کی جاتیں۔
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 5 کروڑ 26 لاکھ ہے اور دیگر براعظموں کے مقابلے میں ایشیاء میں ان افراد کی نہ صرف تعداد بہت زیادہ ہے بلکہ ان کی کام کاج سے متعلق حالت بھی ابتر ہے۔
آئی ایل او کے سینیئر عہدیدار ڈاکٹر سیف اللہ چوہدری نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں گھروں میں کام کرنے والے افراد سے متعلق اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس شعبے میں خرابیوں کے تدارک اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کی فلاح بہود کے لیے اقدامات نہیں لیے جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں ملازمین اور مالکان کے درمیان کوئی باضابطہ معاہدہ موجود نہیں ہوتا۔
سیف اللہ نے بتایا کہ گھروں میں کام کرنے والے افراد کو صحت، اجرت اور اپنی ملازمت سے متعلق کوئی تحفظ مہیا نہیں اور بیشتر مواقع پر ان کے حقوق کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
’’ہم بس انہیں ملازم ہی تسلیم کرلیں اور ایک پرچے پر یہ درج کردیں کہ اس کی ملازمت کی کیا شرائط ہوں گی اور اسے دن میں کتنے گھنٹے کام کرنا ہے تو ہم کچھ ان کے حقوق کا تحفظ کر لیں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے قانون سازی اس بنیاد پر نا کرنا کہ یہ ترقی یافتہ ملکوں کا درد سر ہے جائز نہ ہوگا۔ ’’کم از کم دوسروں کے حقوق کی جب بات آئے تو ہمیں ایسی تفریق نہیں کرنی چاہیئے۔‘‘
آئی ایل او رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا میں گھریلو ملازمین میں سے صرف 3 فیصد کو ہفتے میں ایک چھٹی کی سہولت حاصل ہے جبکہ 76 فیصد گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو زچگی کے دوران بھی چھٹیاں یا کوئی مالی مراعات مہیا نہیں کی جاتیں۔ رپورٹ کے مطابق گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد کا 81 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔
حمکران پیپلز پارٹی کی قانون ساز یاسمین رحمان کی جانب سے گھریلو ملازمین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے لیے ایک ضابطہ کار وضع کرنے کے لیے ایک بل دو سال قبل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا مگر اب تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
یاسمین رحمان کہتی ہیں ’’میں سیکرٹری اور وزیر کو کہتی رہی کہ کم از کم اسے قائمہ کمیٹی میں بحث کے لیے پیش کریں مگر ایسا بھی نہیں کیا گیا کیونکہ میرے خیال میں ان کو خطرہ تھا کہ یہ منظور ہو جائے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ بل میں خواتین ملازمین کو ہراساں کرنے سے متعلق شکایات کے لیے بھی مقامی تھانے میں ایک سیل کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مزدوروں کی تعداد تقریباً 6 کروڑ 30 لاکھ ہے اور ان میں سے بیشتر دیہی علاقوں میں کام کاج کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمین سے متعلق قانون سازی میں ایک بڑی رکاوٹ ملک میں جاگیردارانہ نظام بھی ہے جس میں دو وقت کھانے کے عوض پورے خاندان سے کام لیا جاتا ہے۔
آئی ایل او کے سینیئر عہدیدار ڈاکٹر سیف اللہ چوہدری نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں گھروں میں کام کرنے والے افراد سے متعلق اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس شعبے میں خرابیوں کے تدارک اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کی فلاح بہود کے لیے اقدامات نہیں لیے جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں ملازمین اور مالکان کے درمیان کوئی باضابطہ معاہدہ موجود نہیں ہوتا۔
سیف اللہ نے بتایا کہ گھروں میں کام کرنے والے افراد کو صحت، اجرت اور اپنی ملازمت سے متعلق کوئی تحفظ مہیا نہیں اور بیشتر مواقع پر ان کے حقوق کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
’’ہم بس انہیں ملازم ہی تسلیم کرلیں اور ایک پرچے پر یہ درج کردیں کہ اس کی ملازمت کی کیا شرائط ہوں گی اور اسے دن میں کتنے گھنٹے کام کرنا ہے تو ہم کچھ ان کے حقوق کا تحفظ کر لیں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے قانون سازی اس بنیاد پر نا کرنا کہ یہ ترقی یافتہ ملکوں کا درد سر ہے جائز نہ ہوگا۔ ’’کم از کم دوسروں کے حقوق کی جب بات آئے تو ہمیں ایسی تفریق نہیں کرنی چاہیئے۔‘‘
آئی ایل او رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا میں گھریلو ملازمین میں سے صرف 3 فیصد کو ہفتے میں ایک چھٹی کی سہولت حاصل ہے جبکہ 76 فیصد گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو زچگی کے دوران بھی چھٹیاں یا کوئی مالی مراعات مہیا نہیں کی جاتیں۔ رپورٹ کے مطابق گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد کا 81 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔
حمکران پیپلز پارٹی کی قانون ساز یاسمین رحمان کی جانب سے گھریلو ملازمین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے لیے ایک ضابطہ کار وضع کرنے کے لیے ایک بل دو سال قبل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا مگر اب تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
یاسمین رحمان کہتی ہیں ’’میں سیکرٹری اور وزیر کو کہتی رہی کہ کم از کم اسے قائمہ کمیٹی میں بحث کے لیے پیش کریں مگر ایسا بھی نہیں کیا گیا کیونکہ میرے خیال میں ان کو خطرہ تھا کہ یہ منظور ہو جائے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ بل میں خواتین ملازمین کو ہراساں کرنے سے متعلق شکایات کے لیے بھی مقامی تھانے میں ایک سیل کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مزدوروں کی تعداد تقریباً 6 کروڑ 30 لاکھ ہے اور ان میں سے بیشتر دیہی علاقوں میں کام کاج کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمین سے متعلق قانون سازی میں ایک بڑی رکاوٹ ملک میں جاگیردارانہ نظام بھی ہے جس میں دو وقت کھانے کے عوض پورے خاندان سے کام لیا جاتا ہے۔