سپریم کورٹ نے تحقیقات کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے سینیئر جج جسٹس شہزاد الشیخ کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دیا جو اپنی رپورٹ 45 روز میں عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کرے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد میں لال مسجد پر 2007ء میں ہونے والے فوجی آپریشن کے حقائق معلوم کرنے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے مرکزی حصے میں واقع لال مسجد، اس سے ملحقہ مدرسے اور رہائش گاہوں میں مشتبہ شدت پسندوں کی موجودگی پر سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں کارروائی کی تھی۔
منگل کو لال مسجد مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد پولیس کی طرف سے اس واقعے کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے بعد سپریم کورٹ نے تحقیقات کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے سینیئر جج جسٹس شہزاد الشیخ کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دیا۔
کمیشن اپنی رپورٹ 45 روز میں عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کرے گا۔
1965ء میں سرخ پتھر سے تعمیر ہونے والی یہ مسجد ’لال مسجد‘ کے نام سے مشہور ہے اور 2001ء میں افغانستان پر امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج کے حملے کے بعد یہاں سے طالبان کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوس اس مسجد کی بین الاقوامی میڈیا پر نمایاں کوریج کی وجہ بنے۔
2007ء میں مسجد سے ملحقہ مدرسے ’جامعہ حفصہ‘ کی طالبات نے اسلام آباد میں میبنہ طور پر غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے والی مساجد کو مسمار کیے جانے کے خلاف لال مسجد کے قریب واقع بچوں کی ایک سرکاری لائبریری پر قبضہ کرلیا۔
بعد ازاں چند پولیس اہلکاروں کی حبس بے جا میں رکھنے کے علاوہ مدرسے کے طلبا و طالبات نے اسلام آباد کے ایک مساج سینٹر سے چینی باشندوں کو ان کے بقول غیر اخلاقی سرگرمیوں کی بنا پر اغوا کر لیا۔
حکومت نے اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جولائی 2007ء میں یہاں فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا اور اس کارروائی میں فوجیوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہو گئے جن میں اس مسجد کے امام مولانا عبد العزیز کے بھائی غازی عبد الرشید بھی شامل تھے۔
وفاقی دارالحکومت کے مرکزی حصے میں واقع لال مسجد، اس سے ملحقہ مدرسے اور رہائش گاہوں میں مشتبہ شدت پسندوں کی موجودگی پر سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں کارروائی کی تھی۔
منگل کو لال مسجد مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد پولیس کی طرف سے اس واقعے کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے بعد سپریم کورٹ نے تحقیقات کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے سینیئر جج جسٹس شہزاد الشیخ کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دیا۔
کمیشن اپنی رپورٹ 45 روز میں عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کرے گا۔
1965ء میں سرخ پتھر سے تعمیر ہونے والی یہ مسجد ’لال مسجد‘ کے نام سے مشہور ہے اور 2001ء میں افغانستان پر امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج کے حملے کے بعد یہاں سے طالبان کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوس اس مسجد کی بین الاقوامی میڈیا پر نمایاں کوریج کی وجہ بنے۔
2007ء میں مسجد سے ملحقہ مدرسے ’جامعہ حفصہ‘ کی طالبات نے اسلام آباد میں میبنہ طور پر غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے والی مساجد کو مسمار کیے جانے کے خلاف لال مسجد کے قریب واقع بچوں کی ایک سرکاری لائبریری پر قبضہ کرلیا۔
بعد ازاں چند پولیس اہلکاروں کی حبس بے جا میں رکھنے کے علاوہ مدرسے کے طلبا و طالبات نے اسلام آباد کے ایک مساج سینٹر سے چینی باشندوں کو ان کے بقول غیر اخلاقی سرگرمیوں کی بنا پر اغوا کر لیا۔
حکومت نے اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جولائی 2007ء میں یہاں فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا اور اس کارروائی میں فوجیوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہو گئے جن میں اس مسجد کے امام مولانا عبد العزیز کے بھائی غازی عبد الرشید بھی شامل تھے۔