افغانستان کی حکومت، اعلیٰ امن کونسل اور طالبان کے نمائندوں کے مابین قطر میں بات چیت ہونے جارہی ہے جسے پاکستان میں مبصرین اور قانون ساز جنگ سے تباہ حال ملک کے لیے ایک نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ بات چیت دوحا میں اتوار اور پیر کو ہوگی جس کے بارے میں طالبان کا کہنا ہے کہ اسے ہرگز افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات نہ سمجھا جائے۔
اس بات چیت کو حکومت اور طالبان کے مابین اختلافات کم کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی گزشتہ سال برسراقتدار آنے کے بعد بارہا یہ کہہ چکے ہیں وہ ملک میں قیام امن کے لیے تمام فریقین کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں اور دو روز قبل بھی ان کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ وہ طالبان کو ملکی آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قومی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت اور ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
لیکن طالبان کا موقف رہا ہے کہ جب تک افغانستان سے تمام بین الاقوامی فوجیں نکل نہیں جاتیں وہ کابل سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
اعلیٰ امن کونسل کے نائب سربراہ عطااللہ لودن نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ اس بات چیت میں 20 رکنی وفد حکومت کی نمائندگی کرے گا اور اس کا مقصد فریقین میں براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے افغانوں کی زیر قیادت ہونے والے کسی بھی امن عمل کی حمایت کرتا ہے۔
پاکستان کی سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "اگر فریقین کی طرف سے کوئی عندیہ ملتا ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں تو وہ خود بھی اور اردگرد کے لوگ بھی چاہیں گے کہ یہ معاملات بات چیت کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔"
سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عکسری رضوی کہتے ہیں کہ فریقین میں بات چیت خوش آئند ہے لیکن اس کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
"ابھی ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کیا گفتگو ہوگی کس ایجنڈے پر بات چیت ہوگی، طالبان چاہیں گے کہ انھیں کوئی پیشکش کی جائے، ان کا کیا جواب ہوگا۔ لیکن یہ ایک اچھی بات ہے کہ کابل حکومت اور طالبان کے کچھ گروپس میں بات چیت کے آثار کافی واضح طور پر نظر آرہے ہیں لیکن اس مرحلے پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس سے کیا نتیجہ حاصل ہوگا۔"
گزشتہ سال کے اواخر میں تمام بین الاقوامی افواج تقریباً 13 سال بعد افغانستان سے اپنے وطن واپس جا چکی ہیں لیکن ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت وہاں 12000 فوجی موجود ہیں جن میں اکثریت امریکی اہلکاروں کی ہے۔ یہ فوجی مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے یہاں موجود ہیں۔
طالبان نے حال ہی میں اپنی کارروائیوں کو مہمیز کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے مختلف حصوں میں کئی ہلاکت خیز حملے کیے ہیں۔