وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن وزارت قانون نہیں، وزارت دفاع نے بنایا تھا۔ سپریم کورٹ میں مخالف سمت میں جاتی ہوئی سماعت کو اپنی حکمت سے عدالتی رہنمائی کی طرف موڑا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اس لیے حکومت کی طرف سے پیش نہیں ہو رہے کہ ان سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشاورت کی تھی۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار وائس آف امریکہ کے لیے سہیل وڑائچ سے خصوصی انٹرویو میں کیا۔
سہیل وڑائچ نے دریافت کیا کہ آپ جیسے قابل شخص کی موجودگی میں آرمی چیف کی توسیع کے کاغذ اور عبارت میں غلطی کیسے ہوگئی؟ فروغ نسیم نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کاغذ وزارت قانون نے نہیں بنائے۔ یہ کام وزارت دفاع کا تھا اور انھوں نے اس طرح کیا جس طرح پہلے ہوتا تھا۔ وقت کم تھا اس لیے وہ مشورے کے لیے وزارت قانون کو نہیں بھیجا گیا۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنی دانست میں ایک سقم کی نشاندہی کی کہ اس بارے میں قانون موجود نہیں ہے۔ یہ قانون پاکستان کے موجودہ یا کسی سابق آئین اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں بھی نہیں تھا۔ یہ جب مجھے احساس ہوا کہ عدالت کو قانون چاہیے تو میں نے مخالف سمت میں جاتی ہوئی سماعت کو حکمت عملی سے گائیڈلائن لینے کی طرف موڑ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ کیس میں جیتا کیونکہ آپ دیکھیں کہ اب آرمی چیف کون ہے؟ یعنی اس کا رزلٹ کیا ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے بارے میں وزیر قانون نے کہا کہ رولز آف بزنس کے مطابق تمام ججز کے معاملات کی ذمے دار وزارت قانون ہے۔ مجھے ایک بات معلوم ہوئی تو اسے سپریم جوڈیشل کونسل تک بڑھانا میری ذمے داری تھی۔ اب سپریم جوڈیشل کونسل کی مرضی ہے، اس کی انکوائری کرے، نہ کرے، جو بھی فیصلہ کرے۔
انھوں نے کہا کہ آئین کے مطابق، کوئی عدالت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ افتخار چودھری کے خلاف جب ایسا ریفرنس آیا تو وہ حالات کچھ اور تھے۔ قانون کے مطابق، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اسی صورت میں ختم کی جا سکتی ہے کہ وہ بدنیتی پر مبنی ہو۔ سپریم کورٹ نے اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے کہ بدنیتی ہے یا نہیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور سے ان کا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ایک بات پر تھوڑی سی بدمزگی ہوگئی جس پر انھوں نے اپنے الفاظ کے انتخاب کی معذرت کرلی۔ لیکن ان سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر کوئی مشاورت نہیں ہوئی تھی اور اس بات کے کئی گواہ موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں ان کے خلاف بعض وکلا اس لیے بات کر رہے ہیں کہ وکلا تنظیموں میں سیاست ہوتی ہے۔ بار کونسلز بار ایسوسی ایشنز دھڑوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ اگر وزیر قانون یا اٹارنی جنرل دوسرے دھڑے کا ہوتا ہے تو لوگ استعفے کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے تقرر کی سفارش انھوں نے کی تھی۔ اگر وہ سفارش نہ کرتے، سمری نہ بناتے تو ان کی تقرری نہ ہوتی۔ رولز آف بزنس کے تحت اٹارنی جنرل کا دفتر وزارت قانون کا ماتحت محکمہ ہے۔ کسی قسم کی تقرریوں بھرتیوں میں اٹارنی جنرل کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل اس لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں پیش نہیں ہوں گے کیونکہ وہ ’کنفلکٹڈ‘ ہیں۔ انھوں نے خود مجھے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے ان سے مشاورت کی۔
فروغ نسیم نے وضاحت کی کہ سوشل میڈیا کے قواعد بنانا وزارت قانون کا کام نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ قواعد وزارت آئی ٹی بنا رہی ہے اور ہم کسی محکمے کی پالیسی پر سوال نہیں اٹھاتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سوشل میڈیا کے قواعد ویسے ہی ہیں جیسے پاکستان میں بنائے جا رہے ہیں۔ اگر فیک نیوز والے پیج چلیں اور پاکستان کی پالیسی کے حق میں کام کرنے والے پیجز بند کیے جائیں گے تو اس بارے میں کہیں پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے بطور وزیر دیوانی مقدمات میں تیزی سے فیصلے کرنے کا قانون بنایا ہے جو اب سینیٹ سے بھی منظور ہوگیا ہے۔ اس کی بدولت پچاس پچاس سال چلنے والے مقدمات کے فیصلے دو ڈھائی سال میں ہونے لگیں گے۔ مقدمے میں تاخیر کرنے والے فریق کو مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ خواتین کو زیادہ حقوق ملیں گے اور ان سے جائیداد نہیں چھینی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ مقدمہ ایک جج سنے گا اور حکم امتناع کا فیصلہ دوسرا جج کرے گا، تاکہ سماعت متاثر نہ ہو۔