پاکستان کے چیف جسٹس نے کہا کہ آئین توڑنے اور قانون کی حکمرانی سے انحراف کے باعث ملک میں تشدد اور لاقانونیت کی فضا پیدا کی۔
اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ مذہبی تعلیمات کی بنیادی روح کو سمجھے بغیر ہونے والی فرقہ بندی نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دیا ہے جو عالمی امن پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ہفتہ کو لاہور میں ’’قانون کی حکمرانی کے ذریعے امن کا قیام‘‘ کے عنوان سے ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ افراد اور ریاستوں کے مابین مسائل کے حل کی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس سے عالمی امن کے قیام میں مدد ملے گی۔
انھوں نے پاکستان کے موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں آئین اور قانون پر مکمل عمل درآمد نا ہونے کے باعث صورت حال اس نہج پر پہنچی ہے۔
’’آئین توڑنے اور قانون کی حکمرانی سے انحراف سے پیدا ہونے و الے حالات نے پاکستان میں تشدد اور لاقانونیت کی فضا پیدا کی جس نے ملک کے کچھ حصوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردانہ نظریات کو جنم دیا۔‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ اس صورت حال میں پاکستان میں شدت پسندی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا اور بالآخر دہشت گردوں نے حکومت کی عمل داری کو چیلنج کیا، جس کے جواب میں ریاست کو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔ تاہم انھوں نے کہا کہ عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی قانون کے دائر اختیار میں رہتے ہوئے ہونی چاہیئے۔
عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس نے کہا کہ معاشی ترقی کا انحصار بھی قانون کی عمل داری پر ہے کیوں کہ جہاں امن و امان ہوتا ہے وہیں تجارت کو فروغ ملتا ہے۔
کانفرنس میں بھارت سے آئے ہوئے قانونی ماہرین بھی شریک تھے اور اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ دونوں ممالک کے ایک ہی نوعیت کے بہت سے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے بھی سرحد کے دونوں اطراف کے قانونی ماہرین اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ہفتہ کو لاہور میں ’’قانون کی حکمرانی کے ذریعے امن کا قیام‘‘ کے عنوان سے ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ افراد اور ریاستوں کے مابین مسائل کے حل کی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس سے عالمی امن کے قیام میں مدد ملے گی۔
انھوں نے پاکستان کے موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں آئین اور قانون پر مکمل عمل درآمد نا ہونے کے باعث صورت حال اس نہج پر پہنچی ہے۔
’’آئین توڑنے اور قانون کی حکمرانی سے انحراف سے پیدا ہونے و الے حالات نے پاکستان میں تشدد اور لاقانونیت کی فضا پیدا کی جس نے ملک کے کچھ حصوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردانہ نظریات کو جنم دیا۔‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ اس صورت حال میں پاکستان میں شدت پسندی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا اور بالآخر دہشت گردوں نے حکومت کی عمل داری کو چیلنج کیا، جس کے جواب میں ریاست کو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔ تاہم انھوں نے کہا کہ عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی قانون کے دائر اختیار میں رہتے ہوئے ہونی چاہیئے۔
عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس نے کہا کہ معاشی ترقی کا انحصار بھی قانون کی عمل داری پر ہے کیوں کہ جہاں امن و امان ہوتا ہے وہیں تجارت کو فروغ ملتا ہے۔
کانفرنس میں بھارت سے آئے ہوئے قانونی ماہرین بھی شریک تھے اور اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ دونوں ممالک کے ایک ہی نوعیت کے بہت سے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے بھی سرحد کے دونوں اطراف کے قانونی ماہرین اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔