پاکستان کے مختلف شہروں میں وکلا چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی کیلئے عدلیہ بحالی تحریک کی طرح ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آ گئے لیکن۔ بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت وکلا جس اعتزاز احسن کے پیچھے چل رہے تھے آج انہی کی اسلا م آباد ہائی کورٹ بار میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ۔
ادھر آل پاکستان وکلا کوآرڈی نیشن کونسل نے جمعہ کو ملک بھر میں ’یوم یکجہتی عدلیہ‘ منانے کا اعلان کر دیا ۔
جمعرات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اظہار یکجہتی اور ملک کی نامورکاروباری شخصیت ملک ریاض کی پریس کانفرنس کے خلاف ملک بھر میں وکلا سراپا احتجاج رہے ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں بار کی کال پر وکلا نے ہڑتال کی ۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے آفس میں دونوں بار ایسوسی ایشنز کا مشترکہ اجلاس ہوا ۔ اس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن اور ملک ریاض حسین کے وکیل زاہد بخاری دونوں کا بارز میں داخلہ بند کر دیا جائے ۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ دونوں بار ایسوسی ایشنز کا کوئی رکن ، ملک ریاض حسین کی وکالت نہیں کرے گا ۔ راولپنڈی میں بھی وکلا نے عدالتی امور کا بائیکاٹ کیا ۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے اجلاس میں چیف جسٹس کے حق میں قرارداد منظور اور زاہد بخاری سمیت ملک ریاض کی وکالت کرنے والے تمام وکلاء کے ہائی کورٹ بار میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔
لاہور میں وکلاء نے ریلی نکالی اور ملک ریاض کے الزامات کے خلاف تحریک چلانے اور ہر جمعرات کو احتجاج کا اعلان کیا۔وکلاء نے جی پی او چوک تک ریلی نکالی ۔ ریلی میں خواتین اور نوجوان وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔
ادھر ملیربار کراچی کے وکلاء نے نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیااور چیف جسٹس کے حق میں زبردست نعرے بازی کی ۔ پشاور میں وکلا نے چیف جسٹس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ریلی نکالی ۔ ڈسٹرکٹ بار روم سے نکالی گئی ریلی میں وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔اس موقع پر شرکا نے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی حمایت میں زبردست نعرے بازی بھی کی ۔ ڈیرہ غازی خان میں وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔
اسلام آباد میں آل پاکستان وکلا ء کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ جمعہ کو عدلیہ سے اظہار یکجہتی کا دن منایا جائے گا ۔ جاری اعلامیہ کے مطابق جمعہ کو ملک بھر میں وکلاء عدالتی امور کا بائیکاٹ کریں گے ۔ کوآرڈی نیشن کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ سید یوسف رضا گیلانی سزا یافتہ ہیں اس لئے انہیں فوری طور پر وزارت عظمیٰ سے الگ ہو جانا چاہیے ۔ اجلاس میں آئندہ کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ۔
یاد رہے کہ منگل کو ملک ریاض نے پریس کانفرنس کی تھی جس میں چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار پر الزام عائد کیا کہ اس نے انہیں بلیک میل کیا اور غیر ملکی دوروں پر اٹھنے والے اخراجات اور نقد ی کی صورت میں 34 کروڑ 42 لاکھ 125 روپے وصول کیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے قرآن شریف اٹھا کر چیف جسٹس سے سوال کیے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ رات کے اندھیرے میں ان کی اور چیف جسٹس کی کتنی ملاقاتیں ہوئیں ؟کیا انہیں ارسلان کیس کے بارے میں پہلے پتہ نہیں تھا ؟ اور میرے پارٹر احمد خلیل کے گھر پر وزیراعظم سے چیف جسٹس کتنی بار ملے ؟
اس پریس کانفرنس کے بعدوکلاء میں ملک ریاض کے خلاف سخت اشتعال پایا جاتا ہے ۔ سپریم کورٹ رجسٹری سے بھی واضح کیا گیا تھا کہ چیف جسٹس کی ملک ریاض سے ملاقاتیں ان کی معزولی کے دوران ہوئی تھیں ۔ اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت نوٹس بھی جاری کیا تھا ۔
جمعرات کو پہلی سماعت پر ملک ریاض تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور استدعا کی کہ مقدمے کیلئے اب تک کوئی وکیل مل نہیں پایا جس کے بعد انہیں وکیل کرنے کیلئے سات دن کی مہلت دی گئی ۔
معروف قانون داں اعتزاز احسن بھی اس مقدمے میں ان کی وکالت سے معذرت کر چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ حامد خان ایڈووکیٹ جو ان کے بحریہ ٹاؤن میں مقدمات کے وکیل تھے وہ اورارسلان از خود نوٹس میں ان کی وکالت کرنے والے زاہد بخاری بھی ان سے معذرت کر چکے ہیں ۔