پاکستان کی دلفریب وادیِ سوات کے لوگ پُرامید ہیں کہ عسکریت پسندی اور پھر سیلاب کی تباہ کاریوں کے کٹھن دور کے بعد جلد اُن کی زندگی معمول پر آ جائے گی۔
سوات اور اس سے ملحقہ اضلاع میں فوج نے 2009ء میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے وہاں حکومت کی عمل داری بحال کر دی تھی جس کے بعد بیشتر علاقوں میں امن عامہ کی صورت حال بھی معمول پر آ گئی۔
مگر اس خوش آئند پیش رفت کے چند ماہ بعد ہی سیلاب نے پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہلانے والے اس خطے کو مزید تباہی سے دوچار کر دیا۔
آج کل سوات میں تعمیر نو کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور بحالی کے اس کام میں کئی غیر ملکی تنظیمیں بھی حکومتِ پاکستان کی معاونت کر رہی ہیں جن میں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس ایڈ‘ بھی پیش پیش ہے۔
لڑائی اور قدرتی آفت نے مقامی معیشت کی بنیاد یعنی سیاحت کی صنعت کو بھی بری طرح متاثر کیا، جس سے سینکڑوں خاندانوں کا روزگار وابستہ تھا۔
بظاہر اس ہی وجہ سے یو ایس ایڈ نے 200 سے زائد ہوٹلوں کی بحالی کا منصوبہ شروع کیا جس کے تحت متاثرہ عمارتوں کے مالکان کو نقد امداد، تعمیری سامان، فرنیچر اور دیگر اشیاء فراہم کی گئیں۔
اس منصوبے سے مستفید ہونے والوں میں محمد روئیدار بھی شامل ہیں جو کالام میں کئی ہوٹلوں کے مالک ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکی اعانت سے سوات میں سیاحت کی صنعت دوبارہ مضبوط ہو رہی ہے۔
’’ہم ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں اور اُمید ہے کہ آنے والا وقت بہتر ہوگا۔‘‘
محمد روئیدار کا کہنا تھا کہ صورت حال میں بہتری کے بعد سیاحوں نے دوبارہ سوات کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے اور مئی کے وسط سے اُن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔
اُن کے بقول سوات میں قیام و طعام پر آنے والے اخراجات ملک کے دیگر سیاحتی مقامات کی نسبت انتہائی کم ہوتے ہیں۔
یو ایس ایڈ کے تعاون سے سوات میں ماہی پروری کے شعبے کی بحالی کا کام بھی جاری ہے جو مقامی آبادی کے روز گار کا یک اہم ذریعہ ہے۔
محمد رشید نے بھی امریکہ کی مالی و تکنیکی امداد سے مدین میں ٹراؤٹ مچھلی کا اپنا فارم دوبارہ تعمیر کیا ہے۔
’’یو ایس ایڈ نے ہمیں مچھلیوں کے انڈے اور مھچلیوں کی جلد افزائش کے لیے بہتر خوراک بھی فراہم کی، جس سے پہلے جو مچھلی اڑھائی سال میں تیار ہوتی تھی وہ ایک سال میں ہم نے تیار کی۔ اس سے پہلے ہمارے لیے یہ ایک غیر یقینی بات تھی۔‘‘
خیبر پختون خواہ اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کی سرگرمیوں کے منتظم پال میک ڈرمٹ (Paul McDermott) نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یو ایس ایڈ مقامی آبادی کو ذریعہ معاش کے بہتر موقعوں کی فراہمی کے علاوہ اُن کی استعداد کار بڑھانے کے لیے تربیت بھی دے رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے ’’پیچیدہ‘‘ تعلقات گزشتہ ایک سال کے دوران تناؤ کا شکار رہے لیکن اس صورت حال نے دوطرفہ تعاون کو متاثر نہیں کیا۔
’’ہم بعض شعبوں میں مزید تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں، اس لیے ہم تاخیر کا سبب بننے والے عوامل کو دور کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔‘‘