لیویز فورس کی تشکیل نو کے قانون منظور

پاکستان نے شمال مغربی قبائلی پٹی اور اس سے ملحقہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے نیم خود مختار علاقوں میں سرگرم مقامی پولیس ’لیویز‘ کی تشکیل نو اور اس کی استعداد کار بہتر بنانے کے لیے نئے قوانین کی منظوری دی ہے۔

سرحدی اُمور کے وفاقی وزیر انجینئر شوکت اللہ نے منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ان علاقوں کی صورت حال یکسر بدل چکی ہے اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں موثر تعاون کے لیے لیویز اہلکاروں کی جدید خطوط پر تربیت اور دیگر اقدامات نا گزیز ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ بدلتے حالات کے تناظر میں صدر آصف علی زرداری نے پیر کو ایک نئے قانون ’ریگولیشن فار فیڈرل لیویز فورس 2012ء‘ کی منظوری دی جس کے تحت لیویز اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ، انھیں جدید اسلحے سے لیس کرنے اور ان کی پیشہ وارانہ تربیت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

’’اس ریگولیشن (قانون) سے لیویز فورس کو تقویت ملے گی ... جو بھی مسئلہ ہو سب سے پہلے لیویز اہلکار اس جگہ پر پہنچتے ہیں، اب اس قانون کی منظوری کے بعد وہ بہتر طور پر اپنی خدمات سر انجام دے سکیں گے۔‘‘

انجینئر شوکت اللہ

انجینئر شوکت اللہ نے کہا کہ لیویز فورس کی استعداد کار بڑھانے سے قبائلی علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو مزید موثر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

’’جب ان کو جدید اسلحہ اور تربیت فراہم کی جائے گی تو اس کا یقیناً (اچھا) اثر پڑے گا ... ان کو مرحلہ وار تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔‘‘

پاکستان کے سات قبائلی علاقوں اور ان سے ملحقہ نیم خود مختار اضلاع میں تعینات لیویز اہلکاروں کی تعداد 8,200 ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس فورس کی تشکیل نو کے لیے جاری منصوبے کے تحت مزید اہلکاروں کو بھی بھرتی کیا جائے گا۔

وزارت برائے سرحدی اُمور کے سیکرٹری حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ لیویز فورس کی تشکیل نو کے لیے قانون سازی اور دیگر فیصلوں سے قبل مقامی قبائل کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے کیوں کہ ان کے بقول یہ فورس قبائلی علاقوں میں رائج قوانین کے تحت خدمات سر انجام دیتے ہیں۔

’’اب ایسا نہیں ہوگا کہ بھرتی ہونے کے فوراً بعد وہ اپنی ڈیوٹی سنبھال لیں گے۔ نئے قانون کے تحت لیویز کا کمانڈ اسٹرکچر باقاعدہ عمر، تجربے، تعلیم اور تربیت سے مشروط ہو گا۔‘‘

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز بر سر پیکار ہیں اور گذشتہ سالوں کے دوران کئی چھوٹے بڑے فوجی آپریشنز کیے جا چکے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ لیویز فورس میں شامل اہلکاروں کا تعلق کیوں کہ قبائلی علاقوں ہی سے ہوتا ہے اس لیے ان کی استعداد کار بڑھانے سے وہاں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو مزید موثر بنانے اور عسکریت پسندوں کے خلاف حاصل کی گئی کامیابیوں کو دیرپا بنانے میں مدد ملے گی۔