اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے متنبہ کیا ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں قابل ذکر کمی کی توقع نہیں اور اُنھوں نے عوام کو آئندہ آنے والے مہینوں میں مزید مشکل صورتحال کے لیے تیار رہنے کا کہا ہے۔
جمعہ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہے لیکن ان کاوشوں کا ثمر آئندہ تین سالوں میں ملنا شروع ہو گا اور اس سے قبل وہ لوگوں کو کوئی ’’جھوٹی امید‘‘ نہیں دلانا چاہتے۔
خواجہ آصف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب ملک میں موسم گرما کے شروع ہوتے ہی ایک بار پھر کم ازکم 12 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے لوگوں کے معمولات زندگی متاثر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی طلب اور رسد میں فرق 3200 میگاواٹ سے بھی تجاوز کر چکا ہے لیکن ان کے بقول حکومت کی کوشش ہو گی کہ لوڈشیڈنگ کو اس حد تک ہی رکھیں کہ لوگ اسے برداشت کر سکیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آئندہ چند ماہ میں 2200 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں آجائے گی جو کہ صورتحال میں کسی حد تک بہتری کا باعث بنے گی۔
ملک کے مختلف علاقوں میں 12 سے 18 گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری کی زیادہ شکایات ہیں وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔
بجلی کے بلوں کی مد میں وفاقی و صوبائی محکموں نے اربوں روپے ادا کرنے ہیں اور وزارت پانی و بجلی نے ایسے نادہندہ اداروں کے خلاف شروع کی گئی مہم کے دوران رواں ہفتے وزیراعظم سیکرٹریٹ سمیت متعدد محکموں کی بجلی منقطع کر دی تھی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ رواں مالی سال کے دوران حکومتی اداروں کے ذمے واجب الادا بجلی کے بل 30 جون تک وصول کر لیے جائیں۔
ان کے بقول سرکاری اداروں کی بجلی منقطع کیے جانے سے حالیہ دنوں میں تین ارب 20 کروڑ روپے کی وصولی ممکن ہو پائی ہے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں توانائی کے شدید بحران کا سامنا رہا ہے، سردیوں میں قدرتی گیس کی کم یابی اور گرمیوں میں بجلی کی طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ سے نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت اور کاروبار سے وابستہ افراد بھی شدید متاثر ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا بجلی کے بحران پر قابو پانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے کیونکہ اس سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حکومت نے اس دوران بجلی کے مختلف پیداواری منصوبے بھی شروع کیے۔
امریکہ بھی پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے معاونت فراہم کرتا چلا آ رہا ہے۔ امریکی اعانت سے ڈیموں کی تعمیر و مرمت کے علاوہ، بجلی گھروں کی استعداد کار بڑھانے اور بجلی کے ترسیل کے نظام کو فعال بنانے پر کام ہو رہا ہے۔
جمعہ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہے لیکن ان کاوشوں کا ثمر آئندہ تین سالوں میں ملنا شروع ہو گا اور اس سے قبل وہ لوگوں کو کوئی ’’جھوٹی امید‘‘ نہیں دلانا چاہتے۔
خواجہ آصف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب ملک میں موسم گرما کے شروع ہوتے ہی ایک بار پھر کم ازکم 12 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے لوگوں کے معمولات زندگی متاثر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی طلب اور رسد میں فرق 3200 میگاواٹ سے بھی تجاوز کر چکا ہے لیکن ان کے بقول حکومت کی کوشش ہو گی کہ لوڈشیڈنگ کو اس حد تک ہی رکھیں کہ لوگ اسے برداشت کر سکیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آئندہ چند ماہ میں 2200 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں آجائے گی جو کہ صورتحال میں کسی حد تک بہتری کا باعث بنے گی۔
ملک کے مختلف علاقوں میں 12 سے 18 گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری کی زیادہ شکایات ہیں وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بجلی کے بلوں کی مد میں وفاقی و صوبائی محکموں نے اربوں روپے ادا کرنے ہیں اور وزارت پانی و بجلی نے ایسے نادہندہ اداروں کے خلاف شروع کی گئی مہم کے دوران رواں ہفتے وزیراعظم سیکرٹریٹ سمیت متعدد محکموں کی بجلی منقطع کر دی تھی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ رواں مالی سال کے دوران حکومتی اداروں کے ذمے واجب الادا بجلی کے بل 30 جون تک وصول کر لیے جائیں۔
ان کے بقول سرکاری اداروں کی بجلی منقطع کیے جانے سے حالیہ دنوں میں تین ارب 20 کروڑ روپے کی وصولی ممکن ہو پائی ہے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں توانائی کے شدید بحران کا سامنا رہا ہے، سردیوں میں قدرتی گیس کی کم یابی اور گرمیوں میں بجلی کی طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ سے نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت اور کاروبار سے وابستہ افراد بھی شدید متاثر ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا بجلی کے بحران پر قابو پانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے کیونکہ اس سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حکومت نے اس دوران بجلی کے مختلف پیداواری منصوبے بھی شروع کیے۔
امریکہ بھی پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے معاونت فراہم کرتا چلا آ رہا ہے۔ امریکی اعانت سے ڈیموں کی تعمیر و مرمت کے علاوہ، بجلی گھروں کی استعداد کار بڑھانے اور بجلی کے ترسیل کے نظام کو فعال بنانے پر کام ہو رہا ہے۔