چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر قابو پانے کے لیے بلدیاتی نظام کا نفاذ اشد ضروری ہے۔
اسلام آباد —
سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کے استحکام کے لیے بنیادی قدم گردانتے ہوئے پیر کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ تین ہفتوں تک اس بارے میں ضروری قانون سازی مکمل کریں تاکہ انتخابات جلد سے جلد ہو سکیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے تین رکنی بنچ کے سامنے اس سے پہلے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وکلاء نے یک زبان ہو کر کہا کہ ان کی حکومتیں عدالت کے حکم پر کسی بھی تاریخ پر بلدیاتی انتخابات کروانے کو تیار ہیں مگر اس کے لیے قانون سازی اور اپنے اپنے صوبوں میں حلقہ بندیاں کروانی ہو نگی جس کے لیے وقت درکار ہو گا۔
سندھ حکومت کی طرف سے امن و امان کی صورت حال جبکہ بلوچستان نے بگٹی اور مری قبائل کے بے دخل افراد کی آباد کاری جیسے مسائل کی نشاندہی بھی کی۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل خالد جاوید کا کہنا تھا کہ عدالت کی خواہش کے مطابق ملک بھر میں کینٹونمٹ یا فوجی چھاؤنیوں کی طرح بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 15 ستمبر کو ممکن نہیں اور اسی بناء پر سندھ حکومت کی طرف سے بہتر انداز میں انتخابات کروانے کے لیے چھ ماہ کا وقت مانگا گیا تھا۔
’’ترامیم کے لیے دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ لینا پڑے گا۔ پھر حلقہ بندیوں اور امن و امان کے بھی مسائل ہیں۔ عام انتخابات میں بھی چند جماعتوں کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی تھی۔ دسمبر کی ڈیڈلان اس لیے رکھی کہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ 2013 سے آگے کھنچنا چاہتے ہیں مگر (ہم بتانا چاہتے تھے کہ) ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں۔‘‘
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر قابو پانے کے لیے بلدیاتی نظام کا نفاذ اشد ضروری ہے جہاں ہر محلے کا کونسلر اپنے علاقے کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہوتے ہوئے قانون نافذ کرنے والوں کی موثر معاونت کر پائے گا۔
ماہرین بھی ملک میں انتظامی بہتری اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر زور دیتے ہیں۔
تاہم الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل شیر افگن کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کروانا کے لیے عام انتخابات کی نسبت بہت بڑے پیمانے پر انتظامات کرنا پڑتے ہیں اس لیے اس سے متعلق دیگر لوازمات مکمل کرنے کے بعد 90 دن میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔
’’قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی چند سو نشستوں کے لیے انتخابات ہوتے ہیں جب کہ یہاں تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے تو اس کے لیے زیادہ انتظامات اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہ جلد بازی میں نہیں ہو سکتے۔‘‘
عدالت عظمٰی کا کہنا تھا کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے وہ چاہے گی کہ تمام ضروری اقدامات کو مکمل کرتے ہوئے ملک بھر میں انتخابات اکتوبر کے پہلے ہفتے تک ہو جائیں۔ اس کیس کی سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے تین رکنی بنچ کے سامنے اس سے پہلے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وکلاء نے یک زبان ہو کر کہا کہ ان کی حکومتیں عدالت کے حکم پر کسی بھی تاریخ پر بلدیاتی انتخابات کروانے کو تیار ہیں مگر اس کے لیے قانون سازی اور اپنے اپنے صوبوں میں حلقہ بندیاں کروانی ہو نگی جس کے لیے وقت درکار ہو گا۔
سندھ حکومت کی طرف سے امن و امان کی صورت حال جبکہ بلوچستان نے بگٹی اور مری قبائل کے بے دخل افراد کی آباد کاری جیسے مسائل کی نشاندہی بھی کی۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل خالد جاوید کا کہنا تھا کہ عدالت کی خواہش کے مطابق ملک بھر میں کینٹونمٹ یا فوجی چھاؤنیوں کی طرح بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 15 ستمبر کو ممکن نہیں اور اسی بناء پر سندھ حکومت کی طرف سے بہتر انداز میں انتخابات کروانے کے لیے چھ ماہ کا وقت مانگا گیا تھا۔
’’ترامیم کے لیے دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ لینا پڑے گا۔ پھر حلقہ بندیوں اور امن و امان کے بھی مسائل ہیں۔ عام انتخابات میں بھی چند جماعتوں کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی تھی۔ دسمبر کی ڈیڈلان اس لیے رکھی کہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ 2013 سے آگے کھنچنا چاہتے ہیں مگر (ہم بتانا چاہتے تھے کہ) ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں۔‘‘
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر قابو پانے کے لیے بلدیاتی نظام کا نفاذ اشد ضروری ہے جہاں ہر محلے کا کونسلر اپنے علاقے کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہوتے ہوئے قانون نافذ کرنے والوں کی موثر معاونت کر پائے گا۔
ماہرین بھی ملک میں انتظامی بہتری اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر زور دیتے ہیں۔
تاہم الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل شیر افگن کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کروانا کے لیے عام انتخابات کی نسبت بہت بڑے پیمانے پر انتظامات کرنا پڑتے ہیں اس لیے اس سے متعلق دیگر لوازمات مکمل کرنے کے بعد 90 دن میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔
’’قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی چند سو نشستوں کے لیے انتخابات ہوتے ہیں جب کہ یہاں تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے تو اس کے لیے زیادہ انتظامات اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہ جلد بازی میں نہیں ہو سکتے۔‘‘
عدالت عظمٰی کا کہنا تھا کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے وہ چاہے گی کہ تمام ضروری اقدامات کو مکمل کرتے ہوئے ملک بھر میں انتخابات اکتوبر کے پہلے ہفتے تک ہو جائیں۔ اس کیس کی سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی گئی۔