دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر حکومت اور دیگر پارلیمانی جماعتیں تو متفق ہو چکی ہیں لیکن مرکز میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس پر رضامند ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
ہفتہ کو اس جماعت نے دیگر سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کے ایک اجلاس کی اسلام آباد میں میزبانی کی جس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سمیت دیگر امور پر مشاورت کی گئی۔
لیکن یہ اجلاس بظاہر بے نتیجہ ثابت ہوا اور اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ہے۔
جنوری 2015ء میں آئین میں ترمیم کے ذریعے ملک میں دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جن کی مدت رواں سال سات جنوری کو ختم ہوگئی۔ حکومت نے ان کی مدت میں توسیع کے لیے حزب مخالف کے راہنماؤں سے مشاورت کی تھی لیکن بات چیت کے کئی دور بے نتیجہ ثابت ہوئے کیونکہ اپوزیشن کا اصرار رہا کہ حکومت ملک کے نظام قانون و انصاف کے لیے موثر اور ٹھوس اصلاحات کے لیے اقدام کرنے کی یقین دہانی کروائے تاکہ آئندہ فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ پڑے۔
رواں ہفتے ہی حکومت اور حزب مخالف کی بیشتر جماعتوں کے راہنماؤں کے ہونے والے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع پر اتفاق ہو گیا تھا اور اس سلسلے میں آئینی ترمیم کا مسودہ آئندہ ہفتے پارلیمان میں پیش کرنے کا بتایا گیا۔
تاہم اس حتمی مشاورتی اجلاس میں پیپلز پارٹی شریک نہیں ہوئی جس پر وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس کے بعد کچھ تجاویز سامنے آئیں تو ان پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
ہفتہ کو پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام اجلاس میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ نے شرکت نہیں کی جب کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو اس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے صحافیوں کو بتایا کہ جماعت نے فاروق نائیک کی سربراہی میں ایک قانونی مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق قانونی ماہرین سے رائے طلب کر کے تجاویز مرتب کرے گی۔