عدنان رشید کا کہنا تھا کہ ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں گولی نہیں ماری گئی تھی بلکہ انھیں طالبان کے خلاف ’’مہم چلانے‘‘ کی وجہ سے حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی طالبان کے ایک سینیئر کمانڈر نے ملالہ کے نام ایک کھلے خط میں اس پر شدت پسندوں کے حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملالہ وطن واپس آ جائیں۔
بدھ کو جاری کیے گئے اس خط میں کمانڈر عدنان رشید کا کہنا تھا کہ اسے فائرنگ کے واقعے سے دھچکا پہنچا اور انھوں نے سوچا کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔
لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کی علامت تصور کی جانے والی اس کم سن طالبہ کو گزشتہ برس سوات میں طالبان شدت پسندوں نے اس وقت فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جب وہ اسکول سے اپنے گھر واپس جا رہی تھیں۔
ملالہ ان دنوں میں برطانیہ میں ہیں جہاں ایک اسپتال میں علاج کے بعد سے وہ مقیم ہیں۔
اپنے خط میں طالبان کمانڈر کا کہنا تھا کہ ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں گولی نہیں ماری گئی تھی بلکہ انھیں طالبان کے خلاف ’’مہم چلانے‘‘ کی وجہ سے حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
عدنان رشید نے خط میں 16 سالہ ملالہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وطن واپس آجائیں اور اسلامی اور پختون ثقافت اپنائیں، اور بچیوں کے مدرسے میں شامل ہوں۔ مزید برآں وہ اپنے قلم کو اس بااثر طبقے کے خلاف استعمال کریں جو ان کے بقول پوری انسانیت کو غلام بنانا چاہتا ہے۔
انگریزی میں تحریر کیا گیا یہ خط پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھیجا گیا تھا۔
ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کی ڈیوہ سروس سے گفتگو میں کہا کہ انھیں یا ان کے اہل خانہ کو کوئی خط موصول نہیں ہوا اور اس کے بارے میں انھوں نے صرف ذرائع ابلاغ سے ہی سنا ہے۔
عدنان رشید پاکستانی فضائیہ کا سابق اہلکار ہے جسے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ لیکن 2012ء میں خیبر پختونخواہ کے شہر بنوں کی جیل پر طالبان شدت پسندوں کے حملے میں وہاں سے فرار ہونے والے قیدیوں میں سے ایک عدنان رشید بھی تھا۔
بدھ کو جاری کیے گئے اس خط میں کمانڈر عدنان رشید کا کہنا تھا کہ اسے فائرنگ کے واقعے سے دھچکا پہنچا اور انھوں نے سوچا کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔
لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کی علامت تصور کی جانے والی اس کم سن طالبہ کو گزشتہ برس سوات میں طالبان شدت پسندوں نے اس وقت فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جب وہ اسکول سے اپنے گھر واپس جا رہی تھیں۔
ملالہ ان دنوں میں برطانیہ میں ہیں جہاں ایک اسپتال میں علاج کے بعد سے وہ مقیم ہیں۔
اپنے خط میں طالبان کمانڈر کا کہنا تھا کہ ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں گولی نہیں ماری گئی تھی بلکہ انھیں طالبان کے خلاف ’’مہم چلانے‘‘ کی وجہ سے حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
عدنان رشید نے خط میں 16 سالہ ملالہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وطن واپس آجائیں اور اسلامی اور پختون ثقافت اپنائیں، اور بچیوں کے مدرسے میں شامل ہوں۔ مزید برآں وہ اپنے قلم کو اس بااثر طبقے کے خلاف استعمال کریں جو ان کے بقول پوری انسانیت کو غلام بنانا چاہتا ہے۔
انگریزی میں تحریر کیا گیا یہ خط پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھیجا گیا تھا۔
ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کی ڈیوہ سروس سے گفتگو میں کہا کہ انھیں یا ان کے اہل خانہ کو کوئی خط موصول نہیں ہوا اور اس کے بارے میں انھوں نے صرف ذرائع ابلاغ سے ہی سنا ہے۔
عدنان رشید پاکستانی فضائیہ کا سابق اہلکار ہے جسے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ لیکن 2012ء میں خیبر پختونخواہ کے شہر بنوں کی جیل پر طالبان شدت پسندوں کے حملے میں وہاں سے فرار ہونے والے قیدیوں میں سے ایک عدنان رشید بھی تھا۔