جولائی کی آخری تاریخوں میں آنے والے سیلاب کی ایک اور ستم ظریفی ابھی باقی ہے۔ صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے چار مہینوں میں سیلاب زدہ علاقوں میں بیس لاکھ افراد میں ملیریا پھیلنے کا خطرہ ہے۔
اس قدر بڑے پیمانے پر ملیریا کی وباء پھوٹناکسی طرح بھی اچھی علامت نہیں کیوں کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے یہاں اس بیماری سے نمٹنے کے لئے نہ تو خاطرخواہ پیشہ ورانہ طبی عملہ موجود ہے نا ہی اتنے ڈاکٹرز کہ درست انداز میں تیمارداری کرسکیں۔ جب بیس لاکھ افراد ایک ہی مرض میں مبتلا ہوں تو ان کے مرض کی صحیح تشخص کے لئے آلات اور اسی قدر بڑے پیمانے پر ادویات بھی درکار ہوں گی۔ پاکستان جس قدرتی آفت میں مبتلا ہے اس سے نمٹنے کے لئے اس کے پاس پہلے ہی کم وسائل ہیں۔ اس پر ملیریا کی وباء باعث فکر ہے۔
دنیا بھر میں ملیریا کے خلاف کمر بستہ مرلن نامی غیر ملکی اور غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے دیے گئے اندازے کے مطابق گزشتہ بارہ مہینوں میں اتنے لوگ ملیریا سے متاثر نہیں ہوئے جتنے آنے والے چار مہینوں میں ہوسکتے ہیں۔ پچھلے سال اندازہ لگایا گیا تھا کہ رواں سال تیرہ لاکھ سے پندرہ لاکھ لوگوں میں ملیریا پھیل سکتا ہے مگرآنے والے صرف چار ماہ میں ملیریا کے بیس لاکھ مریضوں کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ یہ پریشان کن اعداد و شمار ہیں۔
صحت کے شعبے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم مرلن کے پاکستانی ماہر نعیم درانی کا کہنا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا کے حوالے سے آئندہ چار مہینے انتہائی اہم ہیں ۔ یہ وہ مہینے ہیں جب پاکستان میں ملیریا پھیلانے والے مچھروں کی بہتات ہوتی ہے اور چونکہ مچھروں کی آماجگاہ پانی کی ذخیرہ گاہیں ہوتی ہیں اس لئے وہ علاقے جہاں سیلاب کا پانی کھڑا ہوگیا تھا وہاں مچھروں کی بہتات لازمی ہے ۔
سیلاب سے ملک بھر کے 62اضلاع بری طرح متاثرہوئے ہیں ، یعنی یہی 62اضلاع ملیریا پھیلانے والے مچھروں کے نشانے پر ہوں گے اور چونکہ سیلاب متاثرین کو بڑے پیمانے پر ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہونا پڑا ہے لہٰذا امراض کے ایک دوسرے سے لگنے کے امکانات بھی اسی قدر بڑھ گئے ہیں۔
فکر کی بات یہ ہے کہ اگر واقعی ملیریا اتنے بڑے پیمانے پر پھیلا تو کیا ہوگا کیوں کہ پاکستان میں باقاعدہ تربیت یافتہ طبی عملہ نہیں ہے ۔ پھر یہاں کا موسم بھی ایسا ہے کہ زیادہ طویل عرصے تک گرمی پڑتی ہے اور بارشوں کی بھی اس بار بہتات ہے ۔ یہ موسمی صورتحال مچھروں اور ملیریا کے لئے " مثالی" ثابت ہوسکتی ہے۔
امریکا نے ملیریا کی وباء پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو چار سو اٹھائیس ملین روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔یہ امداد یو ایس ایڈکی جانب سے دی جارہی ہے جو انسداد ملیریا کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر خرچ کی جائے گی۔ اس رقم سے ملیریا کی تشخیص کے لئے جدید آلات خریدے جائیں گے جبکہ انسداد ملیریا کی ادویات پر بھی یہی امداد خرچ ہوگی۔
محکمہ صحت کےاعداد و شمار کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں اب تک ملیریا کے 155,795کیسز سامنے آچکے ہیں۔ ان مریضوں کا سندھ میں قائم ایک سو پچپن موبائل کیمپس سمیت پانچ سو چھیانوے میڈیکل کیمپس میں علاج ہورہا ہے۔
انہی اعداد وشمار کے مطابق ان کیمپوں میں ہیضے کے 214,420مریض ، گیسٹرو کے 39,637،جلدی امراض کے 229,445مریض ، آنکھوں کے انفیکشن میں مبتلا 89,354مریض، سانپ کے کاٹنے سے بیمار ہونے والے تین سو اسی اور دیگر بیماریوں میں مبتلا 348,891 مریض موجود ہیں۔