پاکستانی صدر ممنون حسین نے نوروز کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنے افغان اور ایرانی ہم منصبوں سے بھی ملاقات کی۔
اسلام آباد —
پاکستان کے صدر ممنون حسین نے گزشتہ سال ستمبر میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد جمعرات کو کابل کا پہلا دورہ کیا۔
جشن نوروز میں شرکت کے لیے اس دورے کی دعوت اُنھیں افغان صدر حامد کرزئی نے دی تھی، جس میں ایران اور تاجکستان کے صدور نے بھی شرکت کی۔
پاکستانی صدر نے اس موقع پر خطے کے ممالک کے مابین قریبی تعاون پر زور دیا۔ اُنھوں نے نوروز کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنے افغان اور ایرانی ہم منصبوں سے بھی ملاقات کی۔
کابل میں افغان صدر حامد کرزئی اور ایرانی صدر حسن روحانی سے ممنون حسین کی یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی، جب حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات کے باعث تہران اور کابل کے اسلام آباد سے تعلقات میں تناؤ آیا ہے۔
اُدھر پاکستان نے ایران کے اغواء کیے گئے پانچ سرحدی محافظوں میں سے ایک اہلکار کی ہلاکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ایرانی سرحدی محافظ کو پاکستانی حدود میں قتل کیا گیا ہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کابل کے حساس علاقے میں واقع سرینا ہوٹل پر دہشت گرد حملے میں چار غیر ملکی شہریوں سمیت نو افراد کی ہلاکت کے بعد افغانستان کے عہدیداروں نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ اس حملے میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی ملوث تھی۔
جب کہ افغان حکام کا الزام تھا کہ حملے سے قبل ایک پاکستانی سفارت کار ہوٹل میں تصاویر بناتے دیکھا گیا۔
تاہم پاکستان نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اُسے اس میں ملوث کرنے کی کوشش پریشان کن ہے۔
جب کہ ایران کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ فروری کے اوائل میں اُس کے پانچ سرحدی محافظوں کو اغواء کے بعد شدت پسند پاکستانی حدود میں لے گئے تھے۔
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی جمعرات کو اس معاملے پر ایران کے صدر حسن روحانی سے بات ہوئی تھی۔
ایران میں سرگرم شدت پسند گروپ جیش العدل نے پانچ ایرانی سکیورٹی گارڈز کو اغواء کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ گروپ ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں سرگرم ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر سرحدی محافظوں کے اغواء سے متعلق قابل عمل انٹیلی جنس معلومات فراہم کی گئیں تو وہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے۔
جشن نوروز میں شرکت کے لیے اس دورے کی دعوت اُنھیں افغان صدر حامد کرزئی نے دی تھی، جس میں ایران اور تاجکستان کے صدور نے بھی شرکت کی۔
پاکستانی صدر نے اس موقع پر خطے کے ممالک کے مابین قریبی تعاون پر زور دیا۔ اُنھوں نے نوروز کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنے افغان اور ایرانی ہم منصبوں سے بھی ملاقات کی۔
کابل میں افغان صدر حامد کرزئی اور ایرانی صدر حسن روحانی سے ممنون حسین کی یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی، جب حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات کے باعث تہران اور کابل کے اسلام آباد سے تعلقات میں تناؤ آیا ہے۔
اُدھر پاکستان نے ایران کے اغواء کیے گئے پانچ سرحدی محافظوں میں سے ایک اہلکار کی ہلاکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ایرانی سرحدی محافظ کو پاکستانی حدود میں قتل کیا گیا ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کابل کے حساس علاقے میں واقع سرینا ہوٹل پر دہشت گرد حملے میں چار غیر ملکی شہریوں سمیت نو افراد کی ہلاکت کے بعد افغانستان کے عہدیداروں نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ اس حملے میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی ملوث تھی۔
جب کہ افغان حکام کا الزام تھا کہ حملے سے قبل ایک پاکستانی سفارت کار ہوٹل میں تصاویر بناتے دیکھا گیا۔
تاہم پاکستان نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اُسے اس میں ملوث کرنے کی کوشش پریشان کن ہے۔
جب کہ ایران کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ فروری کے اوائل میں اُس کے پانچ سرحدی محافظوں کو اغواء کے بعد شدت پسند پاکستانی حدود میں لے گئے تھے۔
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی جمعرات کو اس معاملے پر ایران کے صدر حسن روحانی سے بات ہوئی تھی۔
ایران میں سرگرم شدت پسند گروپ جیش العدل نے پانچ ایرانی سکیورٹی گارڈز کو اغواء کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ گروپ ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں سرگرم ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر سرحدی محافظوں کے اغواء سے متعلق قابل عمل انٹیلی جنس معلومات فراہم کی گئیں تو وہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے۔