ہر صحافی کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنتا ہوا دیکھ سکتا ہے اور اگلی نسل کو اپنی یادیں منتقل کرسکتا ہے۔ تاریخ کی کوئی کتاب کسی شخصیت کی یادیں براہ راست سننے سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ وائس آف امریکہ کے کئی سینئر صحافیوں نے پانچ جولائی کا مارشل لا پاکستان میں دیکھا۔ وہ آج بھی اس دن کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔
نوجوان خلیل بگھیو اس وقت سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے راولپنڈی دفتر میں کام کرتے تھے۔ پوری دنیا کے لیے مارشل لا کی خبر ان کے ہاتھوں بریک ہوئی۔ خلیل بگھیو نے بتایا۔
’’اس وقت میں رات کی شفٹ میں ڈیوٹی پر تھا۔ وہیں مال روڈ پر دفتر میں تھا۔ ہمارے ڈی جی عبدالحکیم علی الصباح دفتر آئے۔ صبح سوا پانچ بجے ہوں گے۔ کہنے لگے، بیٹا ذرا اٹھ جائیے۔ میں ڈیسک پر آ گیا۔ انھوں نے بتایا کہ پریس ریلیز انھیں سیکرٹری اطلاعات نے لکھوائی ہے۔ پھر انھوں نے مجھے خبر لکھوائی۔ میں نے اسے ٹائپ کیا۔ وہ پہلی خبر تھی جو پانچ بجکر بیس یا پچیس منٹ پر اے پی پی سے جاری ہوئی۔ ریڈیو پر پہلا بلیٹن ساڑھے چھ بجے نشر کیا جاتا تھا۔ ہم اس سے ایک گھنہ پہلے خبر دے چکے تھے۔‘‘
قمر عباس جعفری ان دنوں کراچی میں تھے اور اخباری کارکنوں کی تنظیم ایپنک کے عہدے دار تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جنرل ضیا الحق کی تقریر انھوں نے کراچی پریس کلب میں سنی۔ انھوں نے کہا۔
’’میں اس وقت کراچی پریس کلب میں تھا جب جنرل ضیا الحق کی تقریر ٹیلی وژن پر نشر ہوئی۔ جب وہ تقریر کر رہے تھے تو پریس کلب میں سب چلا رہے تھے، جھوٹ بولتا ہے، جھوٹ بولتا ہے۔ یہ ماحول تھا پریس کلب کا۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ جو بات کر رہے ہیں، وہ سچ ہے۔ میں اس وقت ایپنک کراچی کا صدر تھا۔ مارشل لا سے پہلے بھٹو صاحب کے خلاف صحافیوں کی تحریک چل رہی تھی اور صحافی گرفتاریاں پیش کر رہے تھے۔ مارشل لا لگنے کے بعد ہمیں پیغام دیا گیا کہ بھٹو صاحب چلے گئے ہیں اس لیے تحریک ختم کر دیں۔ ہم نے کہا کہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس واپس لیں۔ اسی وقت فوجی حکومت اور پریس میں تناؤ کا آغاز ہو گیا۔ منہاج برنا جیسے ہمارے سینئرز کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب فوج سختی کرے گی۔‘‘
مارشل لا لگا تو اسد نذیر ریڈیو پاکستان کے کارکن تھے۔ انھوں نے نہ صرف ضیا الحق بلکہ یحیی خان کا مارشل لا بھی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران دیکھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ فوجی افسر آئے اور انھوں نے ریڈیو پروگرام سینسر کرنا شروع کر دیے۔ انھوں نے کہا۔
’’میرا تعلق نیوز اور کرنٹ افیئرز سے نہیں تھا بلکہ میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے پروگرامنگ ڈپارٹمنٹ میں تعینات تھا۔ یہ دوسرا مارشل لا تھا جو میں نے ریڈیو کی ملازمت میں دیکھا۔ ایک یحیی خاں کا تھا اور دوسرا یہ تھا۔ حسب معمول فوجی افسر ریڈیو کے دفتر میں آئے اور پروگرام سینسر کرنے لگے۔ خاص بات جو میں نے نوٹ کی، وہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں لفظ عوامی کا استعمال زیادہ تھا۔ مارشل لا لگنے کے بعد لوگوں نے کہا کہ جہاں عوامی کا لفظ ہے، وہاں اسلامی لگا دو۔ باقی سب کچھ ٹھیک ہے۔ جنرل ضیا الحق کے آنے کے بعد بھٹو صاحب کا نام لینا منع ہو گیا تھا۔ یحیی خان کے دور میں بھی ایسا ہوا تھا جب جنرل ایوب کا نام نہیں لیا جاتا تھا۔ مارشل لا میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ سابقہ لیڈر شخص ممنوعہ ہو جاتا ہے۔
خالد حمید کو پاکستان ٹیلی وژن کے نیوزکاسٹر کی حیثیت سے پورا ملک جانتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ پانچ جولائی کی شام پی ٹی وی ملازمین کی یونین نے نیوز روم اور اسٹوڈیو پر قبضہ کرلیا تھا۔ انھوں نے بتایا۔
’’خبرنامہ پڑھنے کے لیے میں اور ارجمند شاہین پی ٹی وی پہنچے۔ مارشل لا لگنے کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے احتجاج کی کال دی تھی۔ پی ٹی وی کے ملازمین کی یونین میں پیپلز پارٹی کے ہمدرد شامل تھے۔ انھوں نے دفتر پر قبضہ کر لیا اور افسروں پر حکم چلانا شروع کر دیا۔ ہم اسٹوڈیو میں جا کر بیٹھے تو خبر نامے سے پہلے یونین کے کچھ لوگ اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر داخل ہوئے اور ہمیں مجبور کیا کہ بازو پر کالی پٹیاں باندھیں۔ میں نے تھوڑا سا احتجاج کیا لیکن ہجوم کے سامنے کون کھڑا ہو سکتا ہے۔ خبرنامہ شروع ہوا تو ملک بھر میں شور مچ گیا۔ جنرل ضیا الحق بھی خبرنامہ دیکھتے تھے۔ اچانک سائرن بجنے لگے اور فوجی گاڑیوں نے پی ٹی وی کی عمارت کو گھیر لیا۔ ہم باہر نکلے تو ماحول بدل چکا تھا۔ سب لوگ سہمے سہمے دکھائی دے رہے تھے۔ پتا چلا کہ آنے والے یونین والوں کو پکڑ کر لے گئے ہیں۔‘‘
پانچ جولائی 1977 کا مارشل لا دیکھنے والے یہ صحافی بعد میں امریکہ آ گئے اور وائس آف امریکہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ لیکن پاکستان میں کام کرنے والے بہت سے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ضیا دور میں میڈیا پر جبر کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج بھی کسی نہ کسی صورت میں برقرار ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے یہ آڈیو لنک کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5