عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سالوں کی نسبت خسرے کی مرض میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2011ء میں چار ہزار کیس رپورٹ ہوئے جب کہ 2012ء میں یہ تعداد 14 ہزار تھی۔
اسلام آباد —
پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حالیہ مہینوں کے دوران خسرے سے متاثرہ بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تاہم مرکزی شہر لاہور میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خسرے سے بچاؤ کی ویکسینیشن مہم کے ذریعے اس وبا پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق رواں سال کے اوائل سے اب تک پنجاب میں خسرے کے باعث 130 سے زائد بچے ہلاک ہوچکے ہیں اور صرف لاہور میں خسرے سے متاثرہ پانچ ہزار کیس رپورٹ ہوئے۔
لاہور کے ایک بڑے سرکاری شفاخانے میو اسپتال میں شعبہ اطفال کے ڈاکٹر افتخار علی مرزا نے بتایا کہ ان کے ہاں تقریباً تین ہزار شدید بیمار بچوں کو ایمرجنسی میں لایا گیا جن میں سے 55 بچے جانبر نہ ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے اواخر میں صوبہ سندھ میں خسرے کی وبا پھیلنے کے بعد یہ خطرہ تھا کہ یہ مرض پنجاب میں بھی پھیل سکتا ہے اور ان کے بقول یہاں متاثر ہونے والے بچوں میں بھی خسرے کا یہی وائرس پایا گیا جو سندھ میں وبا کا باعث بنا تھا۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر افتخار نے بتایا کہ 24 لاکھ 60 ہزار بچوں کو خسرے سے بچاؤ کی ویکسین دی گئی۔
’’نو روزہ مہم شروع کی گئی جس کی وجہ سے وبا پر قابو پالیا گیا اور اب ہمارے پاس وہ لوگ آرہے ہیں جنہوں نے ویکسینیشن سے پہلے وائرس لے لیا ہوا تھا۔ پہلے نو ماہ کی عمر میں ویکسین دی جاتی تھی اور دوسری خوراک 15 ماہ میں دی جاتی تھی لیکن جب وبا پھیلتی ہے تو پھر چھوٹے بچوں کو بھی خطرہ ہوتا ہے اس لیے ہم نے چھ ماہ سے لے کر 10 سال تک کی عمر کے بچوں کو ویکسین دی گئی۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ میو اسپتال میں ہلاک ہونے والے بچوں میں سے اکثریت ایسے متاثرہ بچوں کی تھی جن کی بیماری پوری طرح سے بگڑنے کے بعد پیچیدہ ہو چکی تھی اور ان میں سے اکثر کی حالت اسپتال لائے جانے سے قبل ہی نازک تھی۔
ڈاکٹر افتخار کا کہنا تھا کہ اس بیماری کی علامات میں بچے کو تیز بخار ہوتا ہے اور اس کے چہرے پر دانے نکل آتے ہیں، اس کی بھوک تقریباً ختم ہوجاتی ہے اور وہ بہت نڈھال رہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچوں کے والدین کو چاہیے کہ انھیں بیماریوں سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے اور قطرے ضرور پلائیں اگر خسرے کی علامات ظاہر ہوں تو فوراً اسپتال سے رجوع کریں۔
’’ یہ ایک وائرس ہوتا ہے جو ایک بچے سے دوسرے بچے کو کھانسی کرنے سے لگتا ہے اور پھر یہ اسی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا جو بچے لائے گئے ان میں زیادہ تر ان علاقوں سے آئے جہاں غربت زیادہ تھی یا زیادہ گنجان آباد علاقے تھے جہاں ایک ایک کمرے میں آٹھ آٹھ دس دس لوگ رہ رہے ہیں، اس وجہ سے یہ بڑی تیزی سے پھیلا۔‘‘
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سالوں کی نسبت خسرے کی مرض میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2011ء میں چار ہزار کیس رپورٹ ہوئے جب کہ 2012ء میں یہ تعداد 14 ہزار تھی۔
ماہرین کے مطابق خسرہ کی بیماری تو جان لیوا نہیں ہوتی لیکن اگر بروقت حفاظتی تدابیر نہ کی جائیں تو یہ نمونیہ، گردن توڑ بخار، دست و اسہال جیسی دیگر جان لیوا بیماریوں کا سبب بن کر مریض کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق رواں سال کے اوائل سے اب تک پنجاب میں خسرے کے باعث 130 سے زائد بچے ہلاک ہوچکے ہیں اور صرف لاہور میں خسرے سے متاثرہ پانچ ہزار کیس رپورٹ ہوئے۔
لاہور کے ایک بڑے سرکاری شفاخانے میو اسپتال میں شعبہ اطفال کے ڈاکٹر افتخار علی مرزا نے بتایا کہ ان کے ہاں تقریباً تین ہزار شدید بیمار بچوں کو ایمرجنسی میں لایا گیا جن میں سے 55 بچے جانبر نہ ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے اواخر میں صوبہ سندھ میں خسرے کی وبا پھیلنے کے بعد یہ خطرہ تھا کہ یہ مرض پنجاب میں بھی پھیل سکتا ہے اور ان کے بقول یہاں متاثر ہونے والے بچوں میں بھی خسرے کا یہی وائرس پایا گیا جو سندھ میں وبا کا باعث بنا تھا۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر افتخار نے بتایا کہ 24 لاکھ 60 ہزار بچوں کو خسرے سے بچاؤ کی ویکسین دی گئی۔
’’نو روزہ مہم شروع کی گئی جس کی وجہ سے وبا پر قابو پالیا گیا اور اب ہمارے پاس وہ لوگ آرہے ہیں جنہوں نے ویکسینیشن سے پہلے وائرس لے لیا ہوا تھا۔ پہلے نو ماہ کی عمر میں ویکسین دی جاتی تھی اور دوسری خوراک 15 ماہ میں دی جاتی تھی لیکن جب وبا پھیلتی ہے تو پھر چھوٹے بچوں کو بھی خطرہ ہوتا ہے اس لیے ہم نے چھ ماہ سے لے کر 10 سال تک کی عمر کے بچوں کو ویکسین دی گئی۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ میو اسپتال میں ہلاک ہونے والے بچوں میں سے اکثریت ایسے متاثرہ بچوں کی تھی جن کی بیماری پوری طرح سے بگڑنے کے بعد پیچیدہ ہو چکی تھی اور ان میں سے اکثر کی حالت اسپتال لائے جانے سے قبل ہی نازک تھی۔
ڈاکٹر افتخار کا کہنا تھا کہ اس بیماری کی علامات میں بچے کو تیز بخار ہوتا ہے اور اس کے چہرے پر دانے نکل آتے ہیں، اس کی بھوک تقریباً ختم ہوجاتی ہے اور وہ بہت نڈھال رہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچوں کے والدین کو چاہیے کہ انھیں بیماریوں سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے اور قطرے ضرور پلائیں اگر خسرے کی علامات ظاہر ہوں تو فوراً اسپتال سے رجوع کریں۔
’’ یہ ایک وائرس ہوتا ہے جو ایک بچے سے دوسرے بچے کو کھانسی کرنے سے لگتا ہے اور پھر یہ اسی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا جو بچے لائے گئے ان میں زیادہ تر ان علاقوں سے آئے جہاں غربت زیادہ تھی یا زیادہ گنجان آباد علاقے تھے جہاں ایک ایک کمرے میں آٹھ آٹھ دس دس لوگ رہ رہے ہیں، اس وجہ سے یہ بڑی تیزی سے پھیلا۔‘‘
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سالوں کی نسبت خسرے کی مرض میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 2011ء میں چار ہزار کیس رپورٹ ہوئے جب کہ 2012ء میں یہ تعداد 14 ہزار تھی۔
ماہرین کے مطابق خسرہ کی بیماری تو جان لیوا نہیں ہوتی لیکن اگر بروقت حفاظتی تدابیر نہ کی جائیں تو یہ نمونیہ، گردن توڑ بخار، دست و اسہال جیسی دیگر جان لیوا بیماریوں کا سبب بن کر مریض کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔