پاکستانی ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ بنیادی صحافی اصولوں کے خلاف بغاوت پر اتر آیا ہے اور شعبہ صحافت کو بدنام کر رہا ہے۔ سینیئر صحافی طلعت حسین
اسلام آباد —
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے ذرائع ابلاغ کے شعبے میں کافی ترقی دیکھی گئی۔ نجی شعبے میں کئی نئے ٹی وی چینلز، ریڈیو اسٹیشنز اور اخبارات آئیں ہیں جو کہ خبروں، تجزیات اور پروگراموں کے اعتبار سے پہت زیادہ آزاد سمجھے جاتے ہیں۔ مگر دوسری جانب خود اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے اب ایک بے لگام گھوڑا بھی قرار دیتے ہیں۔
سینیئر صحافی اور ایکسپریس ٹی وی چینل کے ایک حالات حاضرہ کے پروگرام کے میزبان سید طلعت حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ بنیادی صحافی اصولوں کے خلاف بغاوت پر اتر آیا ہے اور شعبہ صحافت کو بدنام کر رہا ہے۔
’’ان کے لہجے اور زبان کو دیکھ اور سن کر شرمندگی آتی ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا یہ مسئلہ ہمارے یہاں بہت بڑھ چکا ہے۔ جو صحافی نہیں وہ صحافی بن کر صحافیوں کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ اجتماعی طور پر ہماری ناکامی ہے۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے اس ٹولے کو سیاسی شخصیات کی بھی پشت پنائی حاصل ہوتی ہے۔ طلعت حسین نے کہا کہ صحافیوں کی تنظیموں اور مالکان کو سنجیدگی سے ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں حکمران اور حزب اختلاف کے اراکین نے متفقہ طور پر ایک قرار منظور کی جس میں نجی ٹی وی چینلز کے مالکان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے حالات حاضرہ کے پروگراموں کے ان میزبانوں کو اپنے اداروں سے باہر نکال دیں جوکہ قانون سازوں اور پارلیمان کے خلاف کسی مہم میں ملوث ہیں۔
قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا ’’کافی ایسے پروگرامز ہیں جس میں (میزبان) ایسا دیکھاتے ہیں کہ جیسے عوام کے نمائندگان جو کہ 70 ہزار یا ایک لاکھ ووٹ لے کر آئیں ہیں مجرم ہیں اور وہ خود آزاد ہیں جو کچھ کہنا چاہیں۔‘‘
پیپلز پارٹی کی قانون ساز شازیہ مری کا کہنا تھا کہ یہ مہم ان عناصر کی سازش کا حصہ ہے جو کہ ہمیشہ سے سیاست دانوں کو بدنام کرتے آئیں ہیں۔ ’’ہمیں ان قوتوں کے خلاف یکجا ہونا پڑے گا۔ اب ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
یاد رہے کہ مقامی میڈیا پر سیاستدانوں کی طرف سے تنقید حال ہی میں چند قانون سازوں اور وزراء کے خلاف ’’غیر مصدقہ‘‘ معلومات کی بنا پر خبریں سامنے آئیں۔
اے آر وائی ٹی وی چینل کے حالات حاضرہ کے پروگرام کے میزبان کاشف عباسی کہتے ہیں کہ صحافیوں اور اینکر پرسنز کے خلاف شکایات کی سنوائی کے لیے کوئی ادارہ نہ ہونا بھی افراد کو اپنی صحافیانہ حدود پار کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
’’پاکستانی صحافی مبرا ہیں جو کچھ چاہیں کہیں اور جو کچھ چاہیں کریں۔ آپ نے ضابطہ اخلاق نافذ کرنے کی کوشش کی تو کہا جائے گا کہ لو آزادی صحافت پر وار کیا جا رہا ہے جبکہ مالکان اسے پیسہ دیتے ہیں جو زیادہ بدتمیزی اور اونچی آواز میں بولتا ہو۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ میڈیا میں بہتری لانے اور ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلز کے پروگراموں کی ریٹنگ سسٹم کا ایک ایسا نظام متعارف کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت کسی پروگرام کی عوام میں قبولیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے نا کہ صرف مقبولیت کو۔
سینیئر صحافی اور ایکسپریس ٹی وی چینل کے ایک حالات حاضرہ کے پروگرام کے میزبان سید طلعت حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ بنیادی صحافی اصولوں کے خلاف بغاوت پر اتر آیا ہے اور شعبہ صحافت کو بدنام کر رہا ہے۔
’’ان کے لہجے اور زبان کو دیکھ اور سن کر شرمندگی آتی ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا یہ مسئلہ ہمارے یہاں بہت بڑھ چکا ہے۔ جو صحافی نہیں وہ صحافی بن کر صحافیوں کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ اجتماعی طور پر ہماری ناکامی ہے۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے اس ٹولے کو سیاسی شخصیات کی بھی پشت پنائی حاصل ہوتی ہے۔ طلعت حسین نے کہا کہ صحافیوں کی تنظیموں اور مالکان کو سنجیدگی سے ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں حکمران اور حزب اختلاف کے اراکین نے متفقہ طور پر ایک قرار منظور کی جس میں نجی ٹی وی چینلز کے مالکان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے حالات حاضرہ کے پروگراموں کے ان میزبانوں کو اپنے اداروں سے باہر نکال دیں جوکہ قانون سازوں اور پارلیمان کے خلاف کسی مہم میں ملوث ہیں۔
قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا ’’کافی ایسے پروگرامز ہیں جس میں (میزبان) ایسا دیکھاتے ہیں کہ جیسے عوام کے نمائندگان جو کہ 70 ہزار یا ایک لاکھ ووٹ لے کر آئیں ہیں مجرم ہیں اور وہ خود آزاد ہیں جو کچھ کہنا چاہیں۔‘‘
پیپلز پارٹی کی قانون ساز شازیہ مری کا کہنا تھا کہ یہ مہم ان عناصر کی سازش کا حصہ ہے جو کہ ہمیشہ سے سیاست دانوں کو بدنام کرتے آئیں ہیں۔ ’’ہمیں ان قوتوں کے خلاف یکجا ہونا پڑے گا۔ اب ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
یاد رہے کہ مقامی میڈیا پر سیاستدانوں کی طرف سے تنقید حال ہی میں چند قانون سازوں اور وزراء کے خلاف ’’غیر مصدقہ‘‘ معلومات کی بنا پر خبریں سامنے آئیں۔
اے آر وائی ٹی وی چینل کے حالات حاضرہ کے پروگرام کے میزبان کاشف عباسی کہتے ہیں کہ صحافیوں اور اینکر پرسنز کے خلاف شکایات کی سنوائی کے لیے کوئی ادارہ نہ ہونا بھی افراد کو اپنی صحافیانہ حدود پار کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
’’پاکستانی صحافی مبرا ہیں جو کچھ چاہیں کہیں اور جو کچھ چاہیں کریں۔ آپ نے ضابطہ اخلاق نافذ کرنے کی کوشش کی تو کہا جائے گا کہ لو آزادی صحافت پر وار کیا جا رہا ہے جبکہ مالکان اسے پیسہ دیتے ہیں جو زیادہ بدتمیزی اور اونچی آواز میں بولتا ہو۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ میڈیا میں بہتری لانے اور ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلز کے پروگراموں کی ریٹنگ سسٹم کا ایک ایسا نظام متعارف کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت کسی پروگرام کی عوام میں قبولیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے نا کہ صرف مقبولیت کو۔