جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت پاکستان میں ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے اور بشمول عدلیہ و فوج تمام اداروں پر تنقید کی جا سکتی ہے ’’لیکن اس کا طریقہ ہوتا ہے‘‘۔
اسلام آباد —
پاکستان میں سپریم کورٹ نے جمعرات کو نجی ٹی وی چینل جیو کی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی نگرانی کرنے والے ادارے پیمرا کی اپنی اہم ذمہ داریوں کو سر انجام دینے کے اعتبار سے کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلز پر قابل اعتراض مواد کے نشر ہونے کے کئی گھنٹوں کے بعد پیمرا کی طرف سے کسی کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت پاکستان میں ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے اور بشمول عدلیہ و فوج تمام اداروں پر تنقید کی جا سکتی ہے ’’لیکن اس کا طریقہ ہوتا ہے‘‘۔
جسٹس خواجہ کا کہنا تھا کہ ان کے مصدقہ ذرائع کے مطابق اب بھی پاکستان میں نشریات دیکھانے والے چینلز ’’فحش مواد‘‘ دیکھاتے ہیں۔
صحافی اور نجی ٹی وی چینل وقت نیوز کے ایک پروگرام کے میزبان مطیع اللہ جان کا بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا میں موجودہ بحران کی ایک بڑی وجہ پیمرا کی ان کے بقول غیر فعال کارکردگی ہے۔
’’پاکستانی میڈیا اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ اس کے ریگولیٹر پیمرا یا پریس کونسل غیر فعال ہو چکے ہیں۔ اس میں سیاسی مصلحت بھی ہے۔ پیمرا کے بورڈ ممبران سیاسی بنیادوں پر مقرر کیے جاتے ہیں۔ یہ پچھلے 12 سال سے بنا ہے مگر آج تک کسی کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کی یا کوئی بڑا جرمانہ نہیں کیا۔‘‘
سماعت کے بعد پیمرا کے نمائندے زاہد ملک سے ادارے کی کارکردگی سے متعلق سوال کرنے پر بھی انہوں نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
گزشتہ ماہ جیو ٹی وی چینل کے صحافی حامد میر پر کراچی میں فائرنگ کے بعد ان کے چینل کی طرف سے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف کئی گھنٹوں کی نشریات چلانے اور بعد میں ایک شو میں مبینہ طور پر چند مقدس شخصیات کی توہین کرنے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
ملک کی کئی عدالتوں میں جیو ٹی وی چینل کو بند کرنے کی درخواستیں دائر کی گئیں اور مختلف شہروں میں چینل اور اس کے مالکان کے خلاف احتجاج بھی ہوئے جن میں مذہبی جماعتیں پیش پیش رہیں۔
اسی کے پیش نظر جیو ٹی وی کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ چینل کے خلاف ان کے بقول نفرت پھیلانے اور ادارے کو بند کروانے کی مہم کو روکا جائے۔
تاہم درخواست پر سماعت کے دوران ایک اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے ایک پروگرام کے میزبان مبشر لقمان نے جسٹس خواجہ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جج صاحب کی جیو ٹی وی کے مالک میر شکیل رحمان سے رشتہ داری ہونے کی وجہ سے انہیں اس سماعت سے علیحدہ ہوجانا چاہیئے۔
جسٹس خواجہ نے میر شکیل الرحمان سے اپنی رشتہ داری کی تصدیق کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تقریباً 16 سالوں سے جیو ٹی وی کے مالک سے ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
عدالت نے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کبھی بھی ایسے حربوں سے متاثر نا ہو گی جس سے مقدمے کے فریقوں کو عدالت کی تشکیل کا اختیار ملے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیو ٹی وی کا معاملہ قانون کے تحت حل ہونا چاہیئے۔
’’ایشو جیو کا نہیں۔ ایشو معاشرے میں آزادی رائے کا ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہیئے۔ کبھی میں زیادتی کروں تو مجھے معافی مانگ لینی چاہیے اور آپ کو مجھے معاف کر دینا چاہیئے۔ اسی اصول کے تحت ہم کہتے ہیں جیو اور جینے دو۔‘‘
سینئیر صحافی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں پیدا ہونے والے بحران کی وجہ کاروباری مفادات اور میڈیا میں صحافتی اقدار میں تنزلی اور ایڈیٹوریل کنٹرول کا بتدریج نا پید ہونا ہے۔ عدالت نے جیو ٹی وی کی درخواست پر وفاقی حکومت اور پیمرا سے آئندہ سماعت میں موقف طلب کیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلز پر قابل اعتراض مواد کے نشر ہونے کے کئی گھنٹوں کے بعد پیمرا کی طرف سے کسی کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت پاکستان میں ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے اور بشمول عدلیہ و فوج تمام اداروں پر تنقید کی جا سکتی ہے ’’لیکن اس کا طریقہ ہوتا ہے‘‘۔
جسٹس خواجہ کا کہنا تھا کہ ان کے مصدقہ ذرائع کے مطابق اب بھی پاکستان میں نشریات دیکھانے والے چینلز ’’فحش مواد‘‘ دیکھاتے ہیں۔
صحافی اور نجی ٹی وی چینل وقت نیوز کے ایک پروگرام کے میزبان مطیع اللہ جان کا بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا میں موجودہ بحران کی ایک بڑی وجہ پیمرا کی ان کے بقول غیر فعال کارکردگی ہے۔
’’پاکستانی میڈیا اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ اس کے ریگولیٹر پیمرا یا پریس کونسل غیر فعال ہو چکے ہیں۔ اس میں سیاسی مصلحت بھی ہے۔ پیمرا کے بورڈ ممبران سیاسی بنیادوں پر مقرر کیے جاتے ہیں۔ یہ پچھلے 12 سال سے بنا ہے مگر آج تک کسی کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کی یا کوئی بڑا جرمانہ نہیں کیا۔‘‘
سماعت کے بعد پیمرا کے نمائندے زاہد ملک سے ادارے کی کارکردگی سے متعلق سوال کرنے پر بھی انہوں نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
گزشتہ ماہ جیو ٹی وی چینل کے صحافی حامد میر پر کراچی میں فائرنگ کے بعد ان کے چینل کی طرف سے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف کئی گھنٹوں کی نشریات چلانے اور بعد میں ایک شو میں مبینہ طور پر چند مقدس شخصیات کی توہین کرنے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
ملک کی کئی عدالتوں میں جیو ٹی وی چینل کو بند کرنے کی درخواستیں دائر کی گئیں اور مختلف شہروں میں چینل اور اس کے مالکان کے خلاف احتجاج بھی ہوئے جن میں مذہبی جماعتیں پیش پیش رہیں۔
اسی کے پیش نظر جیو ٹی وی کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ چینل کے خلاف ان کے بقول نفرت پھیلانے اور ادارے کو بند کروانے کی مہم کو روکا جائے۔
تاہم درخواست پر سماعت کے دوران ایک اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے ایک پروگرام کے میزبان مبشر لقمان نے جسٹس خواجہ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جج صاحب کی جیو ٹی وی کے مالک میر شکیل رحمان سے رشتہ داری ہونے کی وجہ سے انہیں اس سماعت سے علیحدہ ہوجانا چاہیئے۔
جسٹس خواجہ نے میر شکیل الرحمان سے اپنی رشتہ داری کی تصدیق کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تقریباً 16 سالوں سے جیو ٹی وی کے مالک سے ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
عدالت نے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کبھی بھی ایسے حربوں سے متاثر نا ہو گی جس سے مقدمے کے فریقوں کو عدالت کی تشکیل کا اختیار ملے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیو ٹی وی کا معاملہ قانون کے تحت حل ہونا چاہیئے۔
’’ایشو جیو کا نہیں۔ ایشو معاشرے میں آزادی رائے کا ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہیئے۔ کبھی میں زیادتی کروں تو مجھے معافی مانگ لینی چاہیے اور آپ کو مجھے معاف کر دینا چاہیئے۔ اسی اصول کے تحت ہم کہتے ہیں جیو اور جینے دو۔‘‘
سینئیر صحافی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں پیدا ہونے والے بحران کی وجہ کاروباری مفادات اور میڈیا میں صحافتی اقدار میں تنزلی اور ایڈیٹوریل کنٹرول کا بتدریج نا پید ہونا ہے۔ عدالت نے جیو ٹی وی کی درخواست پر وفاقی حکومت اور پیمرا سے آئندہ سماعت میں موقف طلب کیا ہے۔