خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ سزا میں اضافے کے لیے وزارت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق رکھتی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی نگرانی کرنے والے ادارے ’’پیمرا‘‘ کی نجی ٹی وی چینل جیو کے لائسنس کی معطلی اور جرمانہ عائد کرنے کے اعلان کے ایک ہی دن بعد وزارت دفاع نے اس فیصلے پر اپنے ’’مکمل عدم اطمینان‘‘ کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ہفتہ کو اپنے ایک مختصر تحریری بیان میں کہا کہ جیو کو ضابطے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے بعد وزارت قطعی طور پر پیمرا کی طرف سے سزا پر مطمئن نہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ سزا میں اضافے کے لیے وزارت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق رکھتی ہے۔
علاوہ ازیں نشریاتی ادارے کی شہرت کو ٹھیس پہچانے پر جیو کی طرف سے وزارت دفاع، آئی ایس آئی اور پیمرا کو 50 ارب روپے ہرجانے کے نوٹس پر وزیر کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع ان کے بقول بے چینی سے عدالت میں اس کا جواب دینے اور اپنے اور آئی ایس آئی پر لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنے کو تیار ہے۔
ادھر حکومت اب پیمرا کے اختیارات کو محدود کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی قائم کردہ کمیٹی پیمرا قوانین میں ترمیم کرنے پر غور کررہی ہے۔
’’اگر ہم ایم سی سی (میڈیا کمپلینٹ کمیشن) کو موثر بنانا چاہتے ہیں تو پیمرا سے یہ لائسنس منسوخ کرنے، سزا دینے کے اختیارات ہماری سفارش ہوگی کہ لے لیے جائیں۔ پیمرا صرف لائسنس دینے والی اور کیبل آپریٹرز کی نگرانی کرنے والی اتھارٹی ہو۔‘‘
مجوزہ میڈیا کمپلینٹ سیل عرفان صدیقی کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں ذرائع ابلاغ کی طرف سے قوائد و ضابطہ کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔
اس مجوزہ کمیشن میں سول سوسائٹی کے علاوہ حکومت اور پاکستان براڈکاسٹر ایسویشن (پی بی اے) کے اراکین ہوں گے۔
جمعہ کو پیمرا نے جیو چینل کی طرف سے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف کئی گھنٹوں کی نشریات چلانے پر چینل کا لائسنس 15 دنوں کے لیے معطل کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔
جیو کی متنازع نشریات کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے پیمرا بھی تنازع کا شکار ہوگیا اور اس کے پرائیویٹ اراکین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ادارے کے قائم مقام سربراہ کی تقرری اور جمعہ کو ہونے والے اجلاس کو چیلنج کردیا۔ پرائیویٹ رکن اسرار عباسی کا پیمرا کے متنازع ہونے پر کہنا تھا۔
’’سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسے متازع کس نے بنایا؟ حکومت نے بنایا ایک ٹی وی چینل کی وجہ سے۔ اگر پیمرا کے اختیارات کسی اور کو دینا ہیں تو قانون میں ترمیم سے حکومت کر سکتی ہے۔ لیکن پیمرا متنازع ادارہ نہیں تھا اسے بنایا گیا ہے۔‘‘
پرائیویٹ اراکین پہلے ہی جیو کا لائسنس منسوخ کرنے کی سفارش کر چکے تھے۔
پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق سیکرٹری جنرل مظہر عباس پیمرا کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’یہ حکومت کے تابع ہوتا ہے کیونکہ اس کے تمام اراکین کی تقرری حکومت ہی کرتی ہے اور پیمرا کے قانون کے اندر ایک شق ہے کہ حکومت انہیں کسی کے خلاف کارروائی کرنے سے روک سکتی ہے۔ کمیشن کا حشر بھی پیمرا والا ہوگا جس طرح یہ بنانے جا رہے ہیں۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ پیمرا ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے کام میں حکومت کی طرف سے کبھی مداخلت نہیں کی گئی۔
پی ایف یو جے حکومت کی کمیٹی کو یہ تجویز پیش کر چکی ہے کہ مجوزہ کمیشن کے اراکین کی تقرری بھی ایک کمیٹی کے ذریعے ہونا چاہئے اور پی بی اے کی نمائندگی اقلیت میں ہونا چاہیے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’’اگر پی بی اے نے چار اراکین نامزد کردیے تو کل اگر شنوائی اسی چینل کے خلاف ہوئی جس کے وہ نمائندے ہیں تو کیسے اس کے خلاف فیصلہ دیں گے۔‘‘
اپریل میں جیو کے صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد نشریاتی ادارے نے ان کے بھائی کے الزامات کو بنیاد بنا کر آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف نشریات چلائیں جس پر بیشتر دیگر ٹی وی چینلز اور سیاسی حلقوں نے بھی جیو مالکان اور انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
بعد ازاں جیو نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے فوج اور آئی ایس آئی سے معافی بھی مانگی تاہم ٹی وی پر نشر پیغامات کے ذریعے چینل الزامات لگاتا رہا ہے کہ اس کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ہفتہ کو اپنے ایک مختصر تحریری بیان میں کہا کہ جیو کو ضابطے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے بعد وزارت قطعی طور پر پیمرا کی طرف سے سزا پر مطمئن نہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ سزا میں اضافے کے لیے وزارت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق رکھتی ہے۔
ادھر حکومت اب پیمرا کے اختیارات کو محدود کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی قائم کردہ کمیٹی پیمرا قوانین میں ترمیم کرنے پر غور کررہی ہے۔
’’اگر ہم ایم سی سی (میڈیا کمپلینٹ کمیشن) کو موثر بنانا چاہتے ہیں تو پیمرا سے یہ لائسنس منسوخ کرنے، سزا دینے کے اختیارات ہماری سفارش ہوگی کہ لے لیے جائیں۔ پیمرا صرف لائسنس دینے والی اور کیبل آپریٹرز کی نگرانی کرنے والی اتھارٹی ہو۔‘‘
مجوزہ میڈیا کمپلینٹ سیل عرفان صدیقی کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں ذرائع ابلاغ کی طرف سے قوائد و ضابطہ کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔
اس مجوزہ کمیشن میں سول سوسائٹی کے علاوہ حکومت اور پاکستان براڈکاسٹر ایسویشن (پی بی اے) کے اراکین ہوں گے۔
جمعہ کو پیمرا نے جیو چینل کی طرف سے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف کئی گھنٹوں کی نشریات چلانے پر چینل کا لائسنس 15 دنوں کے لیے معطل کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔
جیو کی متنازع نشریات کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے پیمرا بھی تنازع کا شکار ہوگیا اور اس کے پرائیویٹ اراکین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ادارے کے قائم مقام سربراہ کی تقرری اور جمعہ کو ہونے والے اجلاس کو چیلنج کردیا۔ پرائیویٹ رکن اسرار عباسی کا پیمرا کے متنازع ہونے پر کہنا تھا۔
’’سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسے متازع کس نے بنایا؟ حکومت نے بنایا ایک ٹی وی چینل کی وجہ سے۔ اگر پیمرا کے اختیارات کسی اور کو دینا ہیں تو قانون میں ترمیم سے حکومت کر سکتی ہے۔ لیکن پیمرا متنازع ادارہ نہیں تھا اسے بنایا گیا ہے۔‘‘
پرائیویٹ اراکین پہلے ہی جیو کا لائسنس منسوخ کرنے کی سفارش کر چکے تھے۔
پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق سیکرٹری جنرل مظہر عباس پیمرا کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’یہ حکومت کے تابع ہوتا ہے کیونکہ اس کے تمام اراکین کی تقرری حکومت ہی کرتی ہے اور پیمرا کے قانون کے اندر ایک شق ہے کہ حکومت انہیں کسی کے خلاف کارروائی کرنے سے روک سکتی ہے۔ کمیشن کا حشر بھی پیمرا والا ہوگا جس طرح یہ بنانے جا رہے ہیں۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ پیمرا ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے کام میں حکومت کی طرف سے کبھی مداخلت نہیں کی گئی۔
پی ایف یو جے حکومت کی کمیٹی کو یہ تجویز پیش کر چکی ہے کہ مجوزہ کمیشن کے اراکین کی تقرری بھی ایک کمیٹی کے ذریعے ہونا چاہئے اور پی بی اے کی نمائندگی اقلیت میں ہونا چاہیے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’’اگر پی بی اے نے چار اراکین نامزد کردیے تو کل اگر شنوائی اسی چینل کے خلاف ہوئی جس کے وہ نمائندے ہیں تو کیسے اس کے خلاف فیصلہ دیں گے۔‘‘
اپریل میں جیو کے صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد نشریاتی ادارے نے ان کے بھائی کے الزامات کو بنیاد بنا کر آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف نشریات چلائیں جس پر بیشتر دیگر ٹی وی چینلز اور سیاسی حلقوں نے بھی جیو مالکان اور انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
بعد ازاں جیو نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے فوج اور آئی ایس آئی سے معافی بھی مانگی تاہم ٹی وی پر نشر پیغامات کے ذریعے چینل الزامات لگاتا رہا ہے کہ اس کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔