پاکستان میں دہشت گردی کے مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے قائم کی گئی فوجی عدالتوں کو غیر فعال ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے اور تاحال ان کی بحالی اور توسیع سے متعلق حکومت اور دیگر پارلیمانی جماعتوں میں بعض امور پر اختلافات بدستور موجود ہیں۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کے مختلف پارلیمانی جماعتوں کے راہنماؤں سے رابطوں میں تیزی آئی جس کا مقصد انھیں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر قائل کرنا ہے جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی پارلیمانی راہنماؤں سے رابطہ کر کے اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔
حزب مخالف کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ انھیں مدت میں توسیع پر تو اعتراض نہیں لیکن فوجی عدالتیں مسئلے کا حل نہیں لہذا حکومت ملک کے نظام عدل میں اصلاحات سے متعلق ٹھوس لائحہ عمل پیش کرے۔
16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سیاسی اتفاق رائے سے آئین میں ترمیم کر کے جنوری 2015ء میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں لیکن اس ترمیم میں ان کی معیاد صرف دو سال رکھی گئی تھی۔
اپنی یہ مدت پوری کرنے کے بعد گزشتہ ماہ کی سات تاریخ سے یہ عدالتیں غیر فعال ہو چکی ہیں۔
مدت میں توسیع کے لیے مشاورت کا سلسلہ تو گزشتہ ماہ ہی شروع ہو گیا تھا اور اس ضمن میں پارلیمانی جماعتوں کے راہنماؤں کے حکومت سے مشاورتی اجلاس بھی ہو چکے ہیں۔
لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں پے در پے پیش آنے والے ہلاکت خیز دہشت گرد واقعات کے بعد حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر جلد اتفاق رائے ہو جائے گا اور اس سلسلے میں آئینی ترمیم پیش کر دی جائے گی۔
مبصرین اور غیرجانبدار حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ گو کہ فوجی عدالتوں نے دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں اپنا کردار تو ادا کیا لیکن جب تک ملک کے نظام عدل کو موثر اور مضبوط بنانے کے اقدام نہیں کیے جاتے، فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے کیا گیا کوئی بھی فیصلہ عارضی اقدام ہی ثابت ہو گا۔
جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے عہدیدار اور سینیئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ فوجی عدالتوں کی معیاد ختم ہونے سے پہلے ہی اس کے مستقبل کے بارے میں مشاورت شروع کر دیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں حزب مخالف کا کردار بھی حوصلہ افزا نہیں رہا۔
"اپوزیشن کو بھی چاہیے تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں حکومت سے اس بارے میں پوچھتی جو ایک طریقہ ہوتا ہے احتساب کا۔"
اس بابت حکومت اور پارلیمانی جماعتوں کے راہنماؤں کا اجلاس رواں ہفتے ہونے جا رہا ہے۔
فوجی عدالتوں نے دو سالوں کے دوران 274 مقدمات سنے جن میں سے 161 مجرموں کو سزائے موت جب کہ ایک سو سے زائد کو مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان سزاؤں کے خلاف مجرموں کو دیگر اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا حق حاصل ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف اس بنا پر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہ دینا بھی مناسب نہیں کہ ابھی تک سول عدلیہ میں اصلاحات نہیں ہو سکی ہیں۔