مارچ کے پہلے ہفتے میں افغان امن مذاکرات کے انعقاد سے متعلق اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمل میں پاکستانی فوج نے اپنا اہم کردار برقرار رکھا ہے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پیر کو قطر میں حکام سے ملاقات کی اور بات چیت کی راہ ہموار کی، جو اب اسلام آباد میں متوقع ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کا سیاسی دفتر قطر میں واقع ہے۔
پاکستانی فوج کی قیادت کی طرف سے کھلے عام افغان امن عمل سے متعلق اس طرح کا کردار بہت کم ہی دیکھنے میں ملتا ہے۔
پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے افغان طالبان سے اُس وقت سے رابطے رہے ہیں جب طالبان کی افغانستان میں حکومت تھی۔
2001ء میں امریکہ کی زیر قیادت بین الاقوامی افواج کی افغانستان میں کارروائی کے آغاز کے بعد افغان اور امریکی عہدیدار پاکستان پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ اُس نے طالبان رہنماؤں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔
لیکن پاکستانی عہدیدار ان الزامات کی نفی کرتے ہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ کی ڈیوہ سروس کو بتایا کہ پاکستان کے افغان طالبان سے تعلقات کو امن مذاکرات کے لیے اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
حسن عسکری نے کہا ہے پاکستانی فوج طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتی ہے۔
واشنگٹن میں قائم ادارے نیشنل انڈاؤمنٹ فار ڈیموکریسی سے وابستہ دفاعی تجزیہ کار حامد ارسلان کہتے ہیں کہ افغان حکومت نے افغان طالبان پر پاکستانی فوج کے اثر کی اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے۔
’’میرے خیال میں صدر غنی نے تسلیم کر لیا ہے پاکستان، خاص طور پر پاکستانی فوج کے ساتھ معاہدہ طالبان سے ہونے والے معاہدے کا حصہ ہو گا۔‘‘
افغان تجزیہ کار سرور احمدزئی نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو بتایا کہ ’’پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی قیادت طالبان سے مذاکرات کے لیے کسی معاہدے پر نہیں پہنچی جس کی وجہ سے پاکستانی فوج اس میں شامل ہوئی۔ میرے خیال میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے سلسلے میں بین الاقوامی برداری کو پاکستان کی فوجی قیادت کی (صلاحیت) پر زیادہ اعتماد ہے۔‘‘
واضح رہے کہ طالبان کے سربراہ ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ سال جولائی سے امن مذاکرات کا عمل معطل ہے۔
تب سے یہ بھی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ طالبان کی نئی قیادت میں اس تنظیم میں کئی گروہ بن رہے ہیں۔ تاہم جنگجوؤں کی طرف سے افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اس دوران مسلسل اضافہ رہا اور ایسی کارروائیوں کا مقصد افغانستان پر دباؤ بڑھانا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے امن مذاکرات کئی ماہ تک جاری رہیں گے۔