پاکستان کی وفاقی وزارت داخلہ نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کی گرفتاری کے لیے ’ریڈ ورانٹ‘ جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔
باقاعدہ طور پر ریڈ وارنٹ جاری کیے جانے کے بعد بین الاقوامی پولیس ’انٹرپول‘ سے رابطہ کیا جائے گا۔
پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں یا قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، اگرچہ اس بارے میں کچھ کوششیں کی گئیں لیکن اُن میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
واضح رہے کہ لگ بھگ دو دہائیوں سے الطاف حسین برطانیہ میں مقیم ہیں اور اُن کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں جن میں سے بعض انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔
الطاف حسین کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کے ایک سینیئر راہنما عمران فاروق کے لندن میں قتل میں ملوث ہونے سے متعلق بھی ایک مقدمہ درج ہے۔
الطاف حسین کے خلاف انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کی طرف سے بھی پولیس سے یہ کہا گیا کہ وہ ملزم کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنائیں۔
واضح رہے کہ لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے قائد نے 22 اگست 2016 کو کراچی میں اپنی جماعت کے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کے دوران سندھ رینجرز کے سربراہ سمیت ملک کی سلامتی کے اداروں پر الزامات لگاتے ہوئے کڑی تنقید کی تھی۔
جب کہ اُن کی تقریر کے بعد مشتعل افراد نے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے دفتر پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔
بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ایک تحریری بیان میں اپنی تقریر اور اُس کے بعد تشدد کے واقعات پر معافی مانگی تھی۔
اس متنازع تقریر کی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں برطانوی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا جب کہ ملک کے مختلف حلقوں کی طرف سے بھی ایم کیو ایم کے بانی راہنما کے بیان کی مذمت کی گئی۔
الطاف حسین کے پاس برطانیہ کی شہریت ہے اور وہ پاکستان میں اپنے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کرتے رہے ہیں تاہم 22 اگست کے بعد اُن کے ٹیلی فونک خطابات پر پابندی عائد کر دی گئی۔
ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود بیشتر سینیئر قیادت کی طرف سے الطاف حسین کی متنازع تقریر سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا تھا اور متحدہ قومی موومنٹ ’ایم کیو ایم‘ کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے کہا کہ اب اس جماعت کو پاکستان ہی سے چلایا جائے گا۔
تاہم برطانیہ میں موجود ایم کیو ایم کے راہنماؤں کا کہنا ہے الطاف حسین ہی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد ہیں۔
پاکستانی وزارت داخلہ کی طرف سے الطاف حسین کے ’ریڈ وارنٹ‘ جاری کرنے کے فیصلے کے بارے میں ایم کیو ایم کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔