پاکستان کی حکومت نے جبری گمشدگیوں کو باقاعدہ جرم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ملک کی عام عدالتوں میں ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمات چلائے جا سکیں۔
اس بات کا فیصلہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں انسانی حقوق کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے منگل کو منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے جاری ایک یبان کے مطابق جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے سے متعلق قانون وضع کر لیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پاکستان بھر میں جبر ی گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے اور لاپتا افراد کے اہل خانہ اپنے عزیزوں کی گمشدگی کا الزام ملک کے بعض سیکورٹی اداروں پر عائد کرتے ہیں۔ گو کہ ادارے ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
تاہم، انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظمیوں کا یہ موقف رہا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینا ضروری ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ مہدی حسن کا کہنا ہے کہ جبری گم شدگیوں کے معاملے سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی قوانین موجود ہیں۔ تاہم، ان کے بقول، اگر حکومت کوئی نیا قانون لانا چاہتی ہے تو یہ ایک درست اقدام ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’قانون سازی اس لیے اہم ہے کہ جبری گمشدگیوں کا الزام خفیہ اداروں پر عائد کیا جاتا ہے‘‘، اس لیے ،ان کے بقول، ’’ان کی پوزیشن کو واضح کرنے کے لیے بھی یہ قانون اہم ہے۔‘‘
مہدی حسن نے کہا کہ پاکستان میں لاپتا افراد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی مرضی سے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کے خاندان والوں کو معلوم نہیں ہوتا اور یا تو وہ مارے جاتے ہیں یا لاپتا ہو جاتے ہیں۔
تاہم، مہدی حسن کے بقول، ’’ایسے لوگ بھی لاپتا افراد میں شامل ہیں جنہیں بعض ادارے مقدمہ چلائے بغیر اپنی تحویل میں رکھتے ہیں اور جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے سے ان افراد کے خلاف کارروائی ممکن ہو سکے گی جو ایسے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہوں گے‘‘۔
سینیئر قانون دان اور پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے جبری گم شدگیوں کے واقعات میں اغوا کا مقدمہ درج ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ غیر قانونی حراست میں لیے گئے شخص کی بازیابی کے لیے ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
تاہم، کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ ایسے واقعات کا کون ذمہ دار ہے، کیونکہ ’’جب وہ واپس آ جاتے ہیں تو وہ اس فرد یا ادارے کا نام بتانے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘
کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ جبری گم شدگیوں کو جرم قرار دینے کے مجوزہ قانون سے شاید کوئی بڑی تبدیلی تو ممکن نہ ہو۔ تاہم، ان کے بقول، تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور قانون کے احترام ہی سے جبری گم شدگیوں جیسے واقعات رک سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ’’کیا ہمیں یہ پتہ چل سکتا ہے کہ انہیں کون حراست میں لیتا ہے۔ یہ کہاں سے اور کیسے واپس آتے ہیں اور ان میں سے کئی ایک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔ کیا کوئی ان کے بارے میں سچ سامنے لائے گا؟‘‘
پاکستان میں لاپتا افراد کے حقوق کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے سرگرم آمنہ جنجوعہ کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی کو فوجداری جرم قرار دینا ایک درست سمت میں قدم ہے۔ تاہم، ان کے بقول، ’’یہ کافی نہیں ہے اور اس سے جبری گم شدگیوں کی مکمل روک تھام نہیں ہو گی‘‘۔
ان کے مطابق، ’’پہلے سے جبری طور لاپتا افراد کو منظر عام پر لانا ضروری ہے اور ان کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ کس کی تحویل میں تھے۔‘‘
آمنہ جنوعہ نے کہا کہ حکومت اس مجوزہ قانون پر دیگر فریقین سے بھی رائے لے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاپتا افراد کو بازیاب کروانے کے بعد انھیں معاوضہ ادا کیا جانا چاہیئے اور ان واقعات میں ملوث افراد کے تعین کے لیے شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال لاپتا افراد سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے بعد کہا تھا کہ قانونی جواز کے بغیر کسی بھی پاکستانی شہری کو تحویل میں رکھنا ایک سنگین جرم ہے اور ایسے معاملات میں مبینہ طور ملوث عہدیداروں کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
پاکستانی حکومت نے 2011ء میں لاپتا افراد کے معاملات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا جو اب تک لاپتا ہونے والے سینکڑوں افراد کے معاملات نمٹا چکا ہے۔ تاہم، متعدد لاپتا افراد کے معاملات اب بھی حل طلب ہیں۔