ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ اُن کے قائد الطاف حسین عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔ ’ججوں کے فیصلے بولتے ہیں ناکہ جج خود...‘
اسلام آباد —
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اپنے قائد الطاف حسین اور کراچی سے متعلق عدالت اعظیٰ کے حالیہ احکامات کا مقابلہ عوامی عدالت میں کرے گی۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جمعہ کو برطانیہ میں مقیم ایم کیو ایم کے خود ساختہ جلا وطن قائد الطاف حسین کے ایک بیان کا از خود نوٹس لیتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے ایک مقدمے میں آئندہ ماہ وضاحت کے لیے طلب کیا۔
جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے عدالت میں طلبی کے اس حکم کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے رہنما عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔
پیر کے روز وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلز پر آئے روز سیاست دان عدلیہ کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں مگر آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ الطاف حسین کی طرف سے چیف جسٹس سے صرف یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ کراچی بد امنی کی صورتحال سے متعلق کیس میں ایک جج کے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بیان کا نوٹس لیں۔
’’اب معاملہ عوامی عدالت میں جا چکا ہے۔ جب عدالت جانبدارانہ بیان دینے لگ جائے تو پھر عوام کی عدالت ہی لگتی ہے .....ججوں کے فیصلے بولتے ہیں ناکہ جج خود۔ اگر انہیں میڈیا پر بیان دینے کا شوق ہے تو ریٹائرمنٹ لیں اور سیاست کریں۔‘‘
کراچی میں امن و امان کی خراب صورت حال پر مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک جج سے منسوب بیان میں کہا گیا تھا کہ کراچی میں متحدہ کی اجارہ داری ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ وفاق اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومتوں کا حصہ ہے اور کراچی شہر کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔
اس کے علاوہ کورٹ نے شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم، نئی حلقہ بندیاں اور ووٹروں کی تصدیق کے عمل کے احکامات بھی جاری کیے ہیں جو کہ ایم کیو ایم کے لیے باعث تشویش ہیں۔
وسیم اختر کہتے ہیں ’’خیبر پختونخواہ کے حالات آپ سب کو معلوم ہیں کہ دہشت گرد ہوائی اڈے کے قریب گھر لے رہے ہیں۔ آدھے سے زیادہ بلوچستان میں آپ پاکستان کا جھنڈا نہیں لگا سکتے۔ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ بس جو کچھ کرنا ہے کراچی ہی میں کرنا ہے۔‘‘
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم سپریم کورٹ کے کراچی سے متعلق حالیہ احکامات کو اسے وہاں کمزور کرنے کے مترادف سمجھتی ہے اس لیے ایسے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمان کہتے ہیں عدالت عظمیٰ اور متحدہ کے درمیان تناؤ سے بظاہر سندھ اور بالخصوص کراچی کے سیاسی حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
’’گزشتہ کئی سالوں سے پشتون کی ایک بہت بڑی تعداد کراچی میں آباد ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد کراچی میں اتنی زیادہ ہے جتنی خیبر پختونخواہ میں نہیں۔ تو شہر کی شکل تبدیل ہوئی ہے اور ایم کیو ایم کی جو گرفت تھی اسے بھی چیلینج کیا گیا ہے۔‘‘
کراچی میں بدامنی کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں بشمول متحدہ قومی موومنٹ موثر کارروائی کا مطالبہ کرتی آئیں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں امن و امان کی مسلسل خراب صورتحال پر قابو پائے بغیر ملک کی معیشت کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جمعہ کو برطانیہ میں مقیم ایم کیو ایم کے خود ساختہ جلا وطن قائد الطاف حسین کے ایک بیان کا از خود نوٹس لیتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے ایک مقدمے میں آئندہ ماہ وضاحت کے لیے طلب کیا۔
جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے عدالت میں طلبی کے اس حکم کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے رہنما عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔
پیر کے روز وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلز پر آئے روز سیاست دان عدلیہ کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں مگر آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ الطاف حسین کی طرف سے چیف جسٹس سے صرف یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ کراچی بد امنی کی صورتحال سے متعلق کیس میں ایک جج کے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بیان کا نوٹس لیں۔
’’اب معاملہ عوامی عدالت میں جا چکا ہے۔ جب عدالت جانبدارانہ بیان دینے لگ جائے تو پھر عوام کی عدالت ہی لگتی ہے .....ججوں کے فیصلے بولتے ہیں ناکہ جج خود۔ اگر انہیں میڈیا پر بیان دینے کا شوق ہے تو ریٹائرمنٹ لیں اور سیاست کریں۔‘‘
کراچی میں امن و امان کی خراب صورت حال پر مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک جج سے منسوب بیان میں کہا گیا تھا کہ کراچی میں متحدہ کی اجارہ داری ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ وفاق اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومتوں کا حصہ ہے اور کراچی شہر کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔
اس کے علاوہ کورٹ نے شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم، نئی حلقہ بندیاں اور ووٹروں کی تصدیق کے عمل کے احکامات بھی جاری کیے ہیں جو کہ ایم کیو ایم کے لیے باعث تشویش ہیں۔
وسیم اختر کہتے ہیں ’’خیبر پختونخواہ کے حالات آپ سب کو معلوم ہیں کہ دہشت گرد ہوائی اڈے کے قریب گھر لے رہے ہیں۔ آدھے سے زیادہ بلوچستان میں آپ پاکستان کا جھنڈا نہیں لگا سکتے۔ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ بس جو کچھ کرنا ہے کراچی ہی میں کرنا ہے۔‘‘
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم سپریم کورٹ کے کراچی سے متعلق حالیہ احکامات کو اسے وہاں کمزور کرنے کے مترادف سمجھتی ہے اس لیے ایسے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمان کہتے ہیں عدالت عظمیٰ اور متحدہ کے درمیان تناؤ سے بظاہر سندھ اور بالخصوص کراچی کے سیاسی حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
’’گزشتہ کئی سالوں سے پشتون کی ایک بہت بڑی تعداد کراچی میں آباد ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد کراچی میں اتنی زیادہ ہے جتنی خیبر پختونخواہ میں نہیں۔ تو شہر کی شکل تبدیل ہوئی ہے اور ایم کیو ایم کی جو گرفت تھی اسے بھی چیلینج کیا گیا ہے۔‘‘
کراچی میں بدامنی کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں بشمول متحدہ قومی موومنٹ موثر کارروائی کا مطالبہ کرتی آئیں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں امن و امان کی مسلسل خراب صورتحال پر قابو پائے بغیر ملک کی معیشت کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔