پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے قائم مرکز میں گزشتہ ایک سال کے دوران خواتین پر تشدد اور دیگر نوعیت کے 1500 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔
اس مرکز کی سربراہ پولیس افسر شاہدہ نسرین نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے خلاف رونما ہونے والے یہ تمام واقعات وہ ہیں جو صرف ضلع ملتان کے مختلف علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر واقعات میں خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے جبکہ تقریباً 50 کے قریب خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف پولیس نے مقدمات درج کیے ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے تحفظ نسواں کے قانون کے تحت گزشتہ سال ملتان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ مرکز قائم کیا تھا تاکہ معاشرے میں ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی داد رسی ہو سکے۔
پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں حقوق نسواں کمیشن کی سربراہ فوزیہ وقار کا کہنا ہے کہ ایسے مرکز صوبے کے دیگر شہروں میں بھی قائم کیے جائیں گے ۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ حالیہ سالوں میں خواتین کے تحفظ اور معاشرے میں ان کی مشکلات کے ازلے کے لیے ناصرف کئی قوانین وضع کیے گئے ہیں بلکہ انتظامی سطح پر بھی موثر اقدامات کیے گئے۔
تاہم انہوں نے کہا خواتین سے متعلق فرسودہ سوچ کو تبدیل کرنا ایک اہم چیلنج ہے۔
" خواتین سے متعلق منفی رویے سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت کمزور اور مظلوم ہے اور اس کو دبانے کے لیے تشدد کا سہارا لینا مشکل نہیں ہے۔ عورت معاشی طور پر بھی کمزور ہوتی ہے اور پیسے مرد کے پاس زیادہ ہوتے ہیں اس لیے انھیں قانونی معاملات میں بھی عورت پر برتری حاصل ہوتی ہے۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ اب پنجاب حکومت نے عورتوں کی ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے خواتین سے متعلق صنفی جرائم کی سماعت کے لیے لاہور میں ایک خصوصی عدالت بھی قائم کی ہے۔
دوسری طرف سندھ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی سربراہ ماجدہ رضوی کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین پر موثر عمل درآمد ضروری ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال صرف صوبہ پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے آٹھ ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے جبکہ غیرت کے نام پرلگ بھگ آٹھ سو سے زائد خواتین کو قتل کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق2017ء میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف رپورٹ ہونے والے واقعات اصل تعداد سے بہت کم تھے۔