عدالت کو وکیل صفائی انور منصور نے بتایا کہ فوج کے سابق سربراہ کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی کہ وہ عدالت میں پیش ہوں اور اس بنا پر انہیں استثنٰی دیا جائے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر کے خلاف غداری کے الزامات سننے والی خصوصی عدالت نے جمعرات کو ’’علیل‘‘ پرویز مشرف کی صحت کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے ایک میڈیکل بورڈ یا ٹیم بنانے کی ہدایت کی۔
اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت کے اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ ٹیم 24 جنوری تک عدالت میں اپنی رپورٹ جمع کروائے۔
ٹربیونل کا یہ حکم وکلاء صفائی کی جانب سے اس بیان کے بعد سامنے آیا کہ ان کے موکل کے امریکہ میں مقیم ڈاکٹر نے انہیں وہاں منتقل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے گزشتہ ہفتے امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد پرویز مشرف کو ان کے خلاف غداری کے الزامات سے متعلق سماعت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
لیکن پرویز مشرف جمعرات کی سماعت میں بھی پیش نا ہوئے جس کی وجہ ان کے وکلاء کے مطابق پرویز مشرف کی خراب صحت ہے۔
عدالت کو وکیل صفائی انور منصور نے بتایا کہ فوج کے سابق سربراہ کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی کہ وہ عدالت میں پیش ہوں اور اس بنا پر انہیں استثنٰی دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے پیرس انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی میں فوج کے سابق سربراہ زیر علاج رہے ہیں اور حال میں ان کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے وہاں ان کے ڈاکٹر ارجمند ہاشمی نے انہیں علاج کے لیے فوری امریکہ منتقل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
امیڈیکل بورڈ کے قیام کے بارے میں ستغاثہ اور دفاع کا کہنا تھا کہ اس سے پرویز مشرف کی صحت سے متعلق ’’ابہام‘‘ دور ہوجائیں گے۔
لیکن استغاثہ کے وکیل طارق حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالت کے رویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ’’زیادہ ہی عدالتی تحمل‘‘ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
’’اگر انہیں پیش نہیں کیا گیا۔ تو بجائے یہ ایک میڈیکل بورڈ کا حکم جاری کرتے دفاع کو چاہئے تھا کہ وہ خود بورڈ تشکیل دے کر رپورٹ پیش کرتے۔ میرے خیال میں ججوں پر جانبدار ہونے کے الزامات ہیں تو اس وجہ سے وہ بیک فٹ پر ہیں۔‘‘
استغاثہ کا سماعت میں کہنا تھا کہ عدالت خود ہی کہہ چکی ہے کہ ان کے خلاف فوجداری قانون کا اطلاق ممکن ہے اور اس سے پہلے بھی پرویز مشرف سیکورٹی اور میڈیکل وجوہات کی بناء پر سماعت میں پیش نہیں ہوئے اس لیے ان کے خلاف ’’سخت احکامات‘‘ جاری کیے جائیں۔
پرویز مشرف کے وکیل محمد علی سیف نے امید کا اظہار کیا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پرویز مشرف کی صحت کے بارے میں ان کے موقف کو تویت دے گی۔
’’میرے خیال میں عدالت کا تحمل کو مظاہرہ کرنا تو ایک خیال ہوسکتا ہے۔ پرویز مشرف صاحب کی طرف سے جو دو رپورٹیں پیش ہوئی ہیں اس کی روشنی میں عدالت نے فیصلہ دیا ہے۔ یہ ایک لحاظ سے منتقی فیصلہ ہے اور ہی فیصلہ آنا چاہیے تھا۔‘‘
سابق صدر کے ایک اور وکیل ابراہیم ستی نے استدعا کی کہ خصوصی عدالت کی کارروائی کو ایک ہفتے تک موخر کیا جائے کیونکہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جا چکی ہے۔
’’درخواست وہاں ڈیسک پر پڑی ہے اور کسی بھی وقت اس پر سماعت شروع ہو سکتی ہے۔ تو اس کارروائی کو روکا جائے جب تک اس پر فیصلہ نہیں ہوتا۔‘‘
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں حکومت کی قائم کردہ ٹربیونل کو کام کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کی عدالتی کارروائی کی بنیاد سپریم کورٹ کا 2009ء کا فیصلہ ہے جس پر نظرثانی کی اپیل سماعت کے لیے منظور ہو چکی ہے۔
فوج کے سابق سربراہ پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے۔
عدالت نے سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔
پرویز مشرف گزشتہ سال مارچ میں خود ساختی جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئے جس پر انہیں آئین شکنی کے علاوہ متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کرنے کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے کسی سابق سربراہ کے خلاف ایسی کارروائی کی جا رہی ہے۔
کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے صرف پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت گرانے کے واقعے سے یہ کارروائی شروع کی جائے اور سابق صدر کا ساتھ دینے والوں کا بھی احتساب کیا جائے۔
اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت کے اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ ٹیم 24 جنوری تک عدالت میں اپنی رپورٹ جمع کروائے۔
ٹربیونل کا یہ حکم وکلاء صفائی کی جانب سے اس بیان کے بعد سامنے آیا کہ ان کے موکل کے امریکہ میں مقیم ڈاکٹر نے انہیں وہاں منتقل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے گزشتہ ہفتے امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد پرویز مشرف کو ان کے خلاف غداری کے الزامات سے متعلق سماعت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
لیکن پرویز مشرف جمعرات کی سماعت میں بھی پیش نا ہوئے جس کی وجہ ان کے وکلاء کے مطابق پرویز مشرف کی خراب صحت ہے۔
عدالت کو وکیل صفائی انور منصور نے بتایا کہ فوج کے سابق سربراہ کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی کہ وہ عدالت میں پیش ہوں اور اس بنا پر انہیں استثنٰی دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے پیرس انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی میں فوج کے سابق سربراہ زیر علاج رہے ہیں اور حال میں ان کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے وہاں ان کے ڈاکٹر ارجمند ہاشمی نے انہیں علاج کے لیے فوری امریکہ منتقل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
امیڈیکل بورڈ کے قیام کے بارے میں ستغاثہ اور دفاع کا کہنا تھا کہ اس سے پرویز مشرف کی صحت سے متعلق ’’ابہام‘‘ دور ہوجائیں گے۔
لیکن استغاثہ کے وکیل طارق حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالت کے رویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ’’زیادہ ہی عدالتی تحمل‘‘ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
’’اگر انہیں پیش نہیں کیا گیا۔ تو بجائے یہ ایک میڈیکل بورڈ کا حکم جاری کرتے دفاع کو چاہئے تھا کہ وہ خود بورڈ تشکیل دے کر رپورٹ پیش کرتے۔ میرے خیال میں ججوں پر جانبدار ہونے کے الزامات ہیں تو اس وجہ سے وہ بیک فٹ پر ہیں۔‘‘
استغاثہ کا سماعت میں کہنا تھا کہ عدالت خود ہی کہہ چکی ہے کہ ان کے خلاف فوجداری قانون کا اطلاق ممکن ہے اور اس سے پہلے بھی پرویز مشرف سیکورٹی اور میڈیکل وجوہات کی بناء پر سماعت میں پیش نہیں ہوئے اس لیے ان کے خلاف ’’سخت احکامات‘‘ جاری کیے جائیں۔
پرویز مشرف کے وکیل محمد علی سیف نے امید کا اظہار کیا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پرویز مشرف کی صحت کے بارے میں ان کے موقف کو تویت دے گی۔
’’میرے خیال میں عدالت کا تحمل کو مظاہرہ کرنا تو ایک خیال ہوسکتا ہے۔ پرویز مشرف صاحب کی طرف سے جو دو رپورٹیں پیش ہوئی ہیں اس کی روشنی میں عدالت نے فیصلہ دیا ہے۔ یہ ایک لحاظ سے منتقی فیصلہ ہے اور ہی فیصلہ آنا چاہیے تھا۔‘‘
سابق صدر کے ایک اور وکیل ابراہیم ستی نے استدعا کی کہ خصوصی عدالت کی کارروائی کو ایک ہفتے تک موخر کیا جائے کیونکہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جا چکی ہے۔
’’درخواست وہاں ڈیسک پر پڑی ہے اور کسی بھی وقت اس پر سماعت شروع ہو سکتی ہے۔ تو اس کارروائی کو روکا جائے جب تک اس پر فیصلہ نہیں ہوتا۔‘‘
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں حکومت کی قائم کردہ ٹربیونل کو کام کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کی عدالتی کارروائی کی بنیاد سپریم کورٹ کا 2009ء کا فیصلہ ہے جس پر نظرثانی کی اپیل سماعت کے لیے منظور ہو چکی ہے۔
فوج کے سابق سربراہ پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے۔
عدالت نے سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔
پرویز مشرف گزشتہ سال مارچ میں خود ساختی جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئے جس پر انہیں آئین شکنی کے علاوہ متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کرنے کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے کسی سابق سربراہ کے خلاف ایسی کارروائی کی جا رہی ہے۔
کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے صرف پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت گرانے کے واقعے سے یہ کارروائی شروع کی جائے اور سابق صدر کا ساتھ دینے والوں کا بھی احتساب کیا جائے۔