احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کے خط میں خفیہ اداروں نے کہا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک شدت پسند فوج کے سابق سربراہ پر جان لیوا حملے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف ’جان کے خطرے‘ کے باعث منگل کو خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
ان کے وکلاء نے اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل بینچ کے سامنے وزارت داخلہ کا ایک خط پیش کیا جس میں خفیہ اداروں نے فوج کے سابق سربراہ پر جان لیوا حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
وکیل صفائی احمد رضا قصوری نے عدالت کو بتایا کہ وزارت کی طرف سے یہ خط اسلام آباد کی سیکورٹی سے متعلق اداروں کو بھیجا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ عدالت کے حکم پرویز مشرف پیش ہونگے لیکن اس لیے عدالت ہی ان کی ’’فول پروف سیکورٹی‘‘ کی ذمہ داری لے۔
سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کے خط میں خفیہ اداروں نے کہا ہے کہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس سے منسلک پاکستان میں شدت پسند فوج کے سابق سربراہ پر جان لیوا حملے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’اسپتال سے عدالت تک انھوں (عسکریت پسندوں) نے تمام راستوں کی ریکی کر لی ہے کہ فلاں راستے سے جائے تو کیسے حملہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے عدالت کے اندر اور باہر حملے کی بھی تیاری کر لی ہے۔ پھر پرویز مشرف کی سیکورٹی کے دستے میں بھی انھوں نے اپنے بندے شامل کر دیے ہیں۔ جیسا کہ سلمان تاثیر کو اس کے گارڈ نے مار دیا تھا۔‘‘
پہلے ہی وکلاء صفائی گزشتہ ہفتے اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر جان لیوا حملے کے پیش نظر خصوصی عدالت کے مقام کو کسی دوسرے ’’محفوظ‘‘ مقام پر منتقل کرنے کی استدعا کر چکے ہیں۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کی پیشی پر ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی اور وکیل صفائی کی طرف سے سیکورٹی خدشات کی بنیاد پر سابق صدر کی حاضری سے استثناء کی درخواست اس عمل میں تاخیر کی کوشش ہے۔
استغاثہ کے وکیل طارق حسن کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ اس وجہ سے بھی ہے کہ ان کی سیکورٹی پر ان کے اپنے محافظ مامور ہیں اور اس کی ذمہ داری حکومت تو نہٰیں لے سکتی نا۔ یہ کہنا کہ حکومت ذمہ دار ہے اور گارڈ اپنے رکھیں تو درست بات نہیں۔ اگر فول پروف چاہیے تو ہمیں تحویل دے دیں ہم ذمہ داری لیتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی میں مزید اضافے کے لیے عدالت اور سابق صدر کی حفاطت پر مامور 1100 اہلکاروں کی تعداد کو تقریباً دگنا کیا گیا ہے۔
عدالت نے منگل کو غداری کے مقدمے کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے پرویز مشرف کو جمعہ کو عدالتی کارروائی مٰں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔
خصوصی عدالت نے 24 دسمبر کو اس مقدمے کی کارروائی شروع کی تھی لیکن سابق فوجی صدر 18 فروری کو پہلی بار تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ قبل ازیں سکیورٹی خدشات اور پھر ناسازی طبع کے باعث وہ کسی بھی سماعت میں عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے تھے۔
گزشتہ ہفتے خصوصی عدالت نے ملزم کی طرف سے عدالت کی تشکیل اور اس کے ججز کے مبینہ متعصبانہ رویے کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جب کہ اس سے قبل یہی عدالت یہ مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلانے کی مشرف کی درخواست کو بھی رد کر چکی تھی۔
سابق فوجی صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے تین نومبر 2007ء میں ملک کا آئین توڑا اور ایمرجنسی نافذ کی۔
پرویز مشرف خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے میں اس وقت کے حکومتی اور فوجی عہدیداروں کی مشاورت بھی شامل تھی لہذا صرف ان ہی پر مقدمہ چلانا درست نہیں۔
ان کے وکلاء نے اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل بینچ کے سامنے وزارت داخلہ کا ایک خط پیش کیا جس میں خفیہ اداروں نے فوج کے سابق سربراہ پر جان لیوا حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
وکیل صفائی احمد رضا قصوری نے عدالت کو بتایا کہ وزارت کی طرف سے یہ خط اسلام آباد کی سیکورٹی سے متعلق اداروں کو بھیجا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ عدالت کے حکم پرویز مشرف پیش ہونگے لیکن اس لیے عدالت ہی ان کی ’’فول پروف سیکورٹی‘‘ کی ذمہ داری لے۔
سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کے خط میں خفیہ اداروں نے کہا ہے کہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس سے منسلک پاکستان میں شدت پسند فوج کے سابق سربراہ پر جان لیوا حملے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’اسپتال سے عدالت تک انھوں (عسکریت پسندوں) نے تمام راستوں کی ریکی کر لی ہے کہ فلاں راستے سے جائے تو کیسے حملہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے عدالت کے اندر اور باہر حملے کی بھی تیاری کر لی ہے۔ پھر پرویز مشرف کی سیکورٹی کے دستے میں بھی انھوں نے اپنے بندے شامل کر دیے ہیں۔ جیسا کہ سلمان تاثیر کو اس کے گارڈ نے مار دیا تھا۔‘‘
پہلے ہی وکلاء صفائی گزشتہ ہفتے اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر جان لیوا حملے کے پیش نظر خصوصی عدالت کے مقام کو کسی دوسرے ’’محفوظ‘‘ مقام پر منتقل کرنے کی استدعا کر چکے ہیں۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کی پیشی پر ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی اور وکیل صفائی کی طرف سے سیکورٹی خدشات کی بنیاد پر سابق صدر کی حاضری سے استثناء کی درخواست اس عمل میں تاخیر کی کوشش ہے۔
استغاثہ کے وکیل طارق حسن کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ اس وجہ سے بھی ہے کہ ان کی سیکورٹی پر ان کے اپنے محافظ مامور ہیں اور اس کی ذمہ داری حکومت تو نہٰیں لے سکتی نا۔ یہ کہنا کہ حکومت ذمہ دار ہے اور گارڈ اپنے رکھیں تو درست بات نہیں۔ اگر فول پروف چاہیے تو ہمیں تحویل دے دیں ہم ذمہ داری لیتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی میں مزید اضافے کے لیے عدالت اور سابق صدر کی حفاطت پر مامور 1100 اہلکاروں کی تعداد کو تقریباً دگنا کیا گیا ہے۔
عدالت نے منگل کو غداری کے مقدمے کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے پرویز مشرف کو جمعہ کو عدالتی کارروائی مٰں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔
خصوصی عدالت نے 24 دسمبر کو اس مقدمے کی کارروائی شروع کی تھی لیکن سابق فوجی صدر 18 فروری کو پہلی بار تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ قبل ازیں سکیورٹی خدشات اور پھر ناسازی طبع کے باعث وہ کسی بھی سماعت میں عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے تھے۔
گزشتہ ہفتے خصوصی عدالت نے ملزم کی طرف سے عدالت کی تشکیل اور اس کے ججز کے مبینہ متعصبانہ رویے کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جب کہ اس سے قبل یہی عدالت یہ مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلانے کی مشرف کی درخواست کو بھی رد کر چکی تھی۔
سابق فوجی صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے تین نومبر 2007ء میں ملک کا آئین توڑا اور ایمرجنسی نافذ کی۔
پرویز مشرف خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے میں اس وقت کے حکومتی اور فوجی عہدیداروں کی مشاورت بھی شامل تھی لہذا صرف ان ہی پر مقدمہ چلانا درست نہیں۔