احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ’’اگر ڈاکٹروں نے کہا کہ عدالت جانے سے اُن کی طبعیت بگڑ سکتی ہے تو عدالت نہیں جائیں گے۔‘‘
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے اُنھیں جمعرات 16 جنوری کو طلب کر رکھا ہے۔
لیکن سابق صدر کے وکیل احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ ان کے موکل بدستور راولپنڈی میں عسکری ادارہ برائے امراض قلب میں زیر علاج ہیں اور اُنھیں ڈاکٹروں نے تاحال اسپتال سے ڈسچارج نہیں کیا ہے۔
’’دو جنوری سے لے کر وہ آج تک اسپتال میں ہیں اور اُن کا باقاعدہ علاج ہو رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے پینل اُنھیں دیکھ رہیں اور اُن کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔‘‘
احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف صرف اُسی صورت عدالت آئیں گے اگر اُن کے ڈاکٹروں نے اجازت دی۔
’’اگر ڈاکٹروں نے کہا کہ عدالت جانے سے اُن کی طبعیت بگڑ سکتی ہے تو عدالت نہیں جائیں گے۔‘‘
اُدھر راولپنڈی کے جس اسپتال میں پرویز مشرف زیر علاج ہیں اُس کی عمارت کے ایک کمرے میں اچانک آگ لگ گئی جس پر فوری قابو پا لیا گیا تاہم اس واقعہ کے بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔
تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرنے کے لیے حکومت نے اس کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی تھی۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 24 دسمبر سے پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تھا لیکن وہ تب سے اب تک خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
ابتدائی سماعت میں پرویز مشرف کی عدالت میں پیش نا ہونے کی وجہ اُن کے گھر کے قریب سے بارودی مواد کی برآمدگی اور سلامتی کے خدشات تھے جب کہ اُن کے وکلا کا کہنا ہے کہ دو جنوری کو سابق صدر عدالت میں پیش ہونے کے لیے نکلے ہی تھے کہ راستے میں اُنھیں سینے کی تکلیف کے باعث اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کرنے کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے کسی سابق سربراہ کے خلاف ایسی کارروائی کی جا رہی ہے۔
پرویز مشرف گزشتہ سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے، بے نظیر بھٹو قتل کیس سمیت چار مقدمات میں اُن کی ضمانت منظور ہو چکی ہے لیکن اُن کے خلاف اس وقت سب سے بڑا مقدمہ غداری سے متعلق ہے۔
لیکن سابق صدر کے وکیل احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ ان کے موکل بدستور راولپنڈی میں عسکری ادارہ برائے امراض قلب میں زیر علاج ہیں اور اُنھیں ڈاکٹروں نے تاحال اسپتال سے ڈسچارج نہیں کیا ہے۔
’’دو جنوری سے لے کر وہ آج تک اسپتال میں ہیں اور اُن کا باقاعدہ علاج ہو رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے پینل اُنھیں دیکھ رہیں اور اُن کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔‘‘
احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف صرف اُسی صورت عدالت آئیں گے اگر اُن کے ڈاکٹروں نے اجازت دی۔
’’اگر ڈاکٹروں نے کہا کہ عدالت جانے سے اُن کی طبعیت بگڑ سکتی ہے تو عدالت نہیں جائیں گے۔‘‘
اُدھر راولپنڈی کے جس اسپتال میں پرویز مشرف زیر علاج ہیں اُس کی عمارت کے ایک کمرے میں اچانک آگ لگ گئی جس پر فوری قابو پا لیا گیا تاہم اس واقعہ کے بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔
تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرنے کے لیے حکومت نے اس کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی تھی۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 24 دسمبر سے پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تھا لیکن وہ تب سے اب تک خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
ابتدائی سماعت میں پرویز مشرف کی عدالت میں پیش نا ہونے کی وجہ اُن کے گھر کے قریب سے بارودی مواد کی برآمدگی اور سلامتی کے خدشات تھے جب کہ اُن کے وکلا کا کہنا ہے کہ دو جنوری کو سابق صدر عدالت میں پیش ہونے کے لیے نکلے ہی تھے کہ راستے میں اُنھیں سینے کی تکلیف کے باعث اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کرنے کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے کسی سابق سربراہ کے خلاف ایسی کارروائی کی جا رہی ہے۔
پرویز مشرف گزشتہ سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے، بے نظیر بھٹو قتل کیس سمیت چار مقدمات میں اُن کی ضمانت منظور ہو چکی ہے لیکن اُن کے خلاف اس وقت سب سے بڑا مقدمہ غداری سے متعلق ہے۔