تسنیم اسلم نے اُن قیاس آرائیوں کو مسترد کیا کہ آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفصیل کا ملک کے سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے سے کوئی تعلق ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان نے کہا ہے کہ ملک کے سابق صدر پرویز مشرف کا کیس اندرونی معاملہ ہے اور اس بارے میں قیاس آرائیاں درست نہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعہ کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’’یہ ایک اندرونی معاملہ ہے اور میرا خیال نہیں کہ اس کا پاکستان سے باہر کسی طرح کا تعلق ہے، نا تو اس خطے میں اور نا ہی اس سے باہر۔‘‘
تسنیم اسلم نے اُن قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کیا کہ آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفصیل کا ملک کے سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے سے کوئی تعلق ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ کو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک میں ملاقات کے دوران دورہ اسلام آباد کی دعوت دی تھی اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے روابط کا حصہ ہے۔
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو جمعرات کو خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے جاتے وقت دل کی تکلیف کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے فوجی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
جس کے بعد ملک میں یہ قیاس آرائیاں گردش کرنے لگیں کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں سعودی عرب یا دیگر ممالک بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اُدھر جمعہ کو بھی راولپنڈی کے ’آرمڈ فورسز انسٹیٹویٹ آف کارڈیالوجی‘ میں ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے سابق صدر پرویز مشرف کا معائنہ کیا لیکن اسپتال یا ڈاکٹروں کی طرف سے سرکاری طور مسٹر مشرف کی صحت کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنماء اور سابق صدر کے وکیل احمد رضا قصوری نے راولپنڈی کے فوجی اسپتال کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ سابق صدر کا اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں علاج کیا جا رہا ہے۔
علاج کی غرض سے پرویز مشرف کی بیرون ملک منتقلی کے بارے میں سوال کے جواب میں احمد رضا قصوری کہنا تھا کہ ’’ڈاکٹر کی رپورٹ کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے… یہ سب سے عظیم ادارہ ہے امراض قلب میں اور اُن کی رپورٹ حتمی ہو گی اور عدالت کو اس کو قبول کرنا پڑے گا…. اگر ڈاکٹر کہیں کہ ان (پرویز مشرف) کا علاج باہر ہونا چاہیئے تو اُن کا موقف سنا جائے گا۔‘‘
پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے جمعرات کو استغاثہ کی استدعا کے باوجود سابق صدر کی گرفتاری کے احکامات نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی گرفتاری کے وارنٹ نا جاری کرنے کی وجہ سابق صدر کی ناسازی طبع ہے۔
2007ء میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دی تھی۔ تاہم سابق فوجی صدر کے وکلاء عدالت کی تشکیل اور اس میں شامل ججوں کی تعیناتی پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔
پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمعہ کو اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے پرویز مشرف کے اُس بیان پر بحث کی جس میں سابق صدر نے کہا کہ تھا غداری سے متعلق مقدمے پر اُنھیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کو بیان جاری کر کے پرویز مشرف کے بیان سے اظہار لا تعلقی کرنا چاہیئے۔
اس پر ایوان میں موجود حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماء سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وزیر دفاع وضاحت کر چکے ہیں کہ فوج کا سابق صدر پرویز مشرف کے بیان سے کوئی تعلق نہیں۔
’’خواجہ آصف جو وزیر دفاع ہیں اُنھوں نے بڑا واضح طور پر بیان دیا ہے حکومت کی طرف سے…. اُنھوں نے کہا کہ فوج حکومت سے کوئی الگ ادارہ نہیں ہے اور اُنھوں نے بطور وزیر دفاع کہا تھا کہ فوج کو قطعاً اس معاملے میں نہ گھسیٹا جائے۔‘‘
پرویز مشرف گزشتہ سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے، بے نظیر بھٹو قتل کیس سمیت چار مقدمات میں اُن کی ضمانت منظور ہو چکی ہے لیکن اُن کے خلاف اس وقت سب سے بڑا مقدمہ غداری سے متعلق ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فوجی سربراہ کے خلاف اس طرح کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعہ کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’’یہ ایک اندرونی معاملہ ہے اور میرا خیال نہیں کہ اس کا پاکستان سے باہر کسی طرح کا تعلق ہے، نا تو اس خطے میں اور نا ہی اس سے باہر۔‘‘
تسنیم اسلم نے اُن قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کیا کہ آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفصیل کا ملک کے سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے سے کوئی تعلق ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ کو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک میں ملاقات کے دوران دورہ اسلام آباد کی دعوت دی تھی اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے روابط کا حصہ ہے۔
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو جمعرات کو خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے جاتے وقت دل کی تکلیف کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے فوجی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
جس کے بعد ملک میں یہ قیاس آرائیاں گردش کرنے لگیں کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں سعودی عرب یا دیگر ممالک بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اُدھر جمعہ کو بھی راولپنڈی کے ’آرمڈ فورسز انسٹیٹویٹ آف کارڈیالوجی‘ میں ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے سابق صدر پرویز مشرف کا معائنہ کیا لیکن اسپتال یا ڈاکٹروں کی طرف سے سرکاری طور مسٹر مشرف کی صحت کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنماء اور سابق صدر کے وکیل احمد رضا قصوری نے راولپنڈی کے فوجی اسپتال کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ سابق صدر کا اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں علاج کیا جا رہا ہے۔
علاج کی غرض سے پرویز مشرف کی بیرون ملک منتقلی کے بارے میں سوال کے جواب میں احمد رضا قصوری کہنا تھا کہ ’’ڈاکٹر کی رپورٹ کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے… یہ سب سے عظیم ادارہ ہے امراض قلب میں اور اُن کی رپورٹ حتمی ہو گی اور عدالت کو اس کو قبول کرنا پڑے گا…. اگر ڈاکٹر کہیں کہ ان (پرویز مشرف) کا علاج باہر ہونا چاہیئے تو اُن کا موقف سنا جائے گا۔‘‘
پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے جمعرات کو استغاثہ کی استدعا کے باوجود سابق صدر کی گرفتاری کے احکامات نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی گرفتاری کے وارنٹ نا جاری کرنے کی وجہ سابق صدر کی ناسازی طبع ہے۔
2007ء میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دی تھی۔ تاہم سابق فوجی صدر کے وکلاء عدالت کی تشکیل اور اس میں شامل ججوں کی تعیناتی پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔
پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمعہ کو اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے پرویز مشرف کے اُس بیان پر بحث کی جس میں سابق صدر نے کہا کہ تھا غداری سے متعلق مقدمے پر اُنھیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کو بیان جاری کر کے پرویز مشرف کے بیان سے اظہار لا تعلقی کرنا چاہیئے۔
اس پر ایوان میں موجود حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماء سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وزیر دفاع وضاحت کر چکے ہیں کہ فوج کا سابق صدر پرویز مشرف کے بیان سے کوئی تعلق نہیں۔
’’خواجہ آصف جو وزیر دفاع ہیں اُنھوں نے بڑا واضح طور پر بیان دیا ہے حکومت کی طرف سے…. اُنھوں نے کہا کہ فوج حکومت سے کوئی الگ ادارہ نہیں ہے اور اُنھوں نے بطور وزیر دفاع کہا تھا کہ فوج کو قطعاً اس معاملے میں نہ گھسیٹا جائے۔‘‘
پرویز مشرف گزشتہ سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے، بے نظیر بھٹو قتل کیس سمیت چار مقدمات میں اُن کی ضمانت منظور ہو چکی ہے لیکن اُن کے خلاف اس وقت سب سے بڑا مقدمہ غداری سے متعلق ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فوجی سربراہ کے خلاف اس طرح کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔