میڈیکل بورڑ نے جمعہ کو خصوصی عدالت میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا کہ سابق صدر کی بیماری پیچیدہ اور غیر متوقع ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کی صحت سے متعلق رپورٹ میڈیکل بورڑ نے جمعہ کو خصوصی عدالت میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ سابق صدر کی بیماری پیچیدہ اور غیر متوقع ہے۔
راولپنڈی میں عسکری ادارہ برائے امراض قلب کے ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پرویز مشرف کو اینجیوگرافی کی فوری ضرورت ہے۔
سابق صدر کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت نے جمعہ کی صبح جب سماعت کا آغاز کیا تو میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش کی گئی۔
وکلاء صفائی کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کو یہ حق حاصل ہے کہ اینجیو گرافی اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی اسپتال سے کروائیں تاہم رپورٹ میں یہ سفارش نہیں کی گئی کہ سابق صدر کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھجوایا جائے۔
وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت میں کہا کہ اگر سابق صدر کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو ایسی صورت میں دیگر ملزم یا مجرم بھی عدالتوں سے ایسا ہی تقاضا کریں گے۔
راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹویٹ آف کارڈیالوجی نے اس سے قبل بھی پرویز مشرف کی صحت سے متعلق رپورٹ خصوصی عدالت میں پیش کی تھی لیکن گزشتہ سماعت کے موقع پر استغاثہ کے مطالبے پر ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دے کر اُسے ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا تھا۔
عدالت نے سماعت 29 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وکلائے استغاثہ پرویز مشرف کی طبی رپورٹ سے متعلق اپنے اعتراضات تحریری طور پر جمع کروا سکتے ہیں۔
پرویز مشرف پہلی سماعت کے موقع پر سلامتی کے خدشات کے باعث عدالت میں حاضر نا ہو سکے جب کہ اُن کے وکلاء کے مطابق دو جنوری کو عدالت جاتے ہوئے راستے ہی سے انھیں سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔
ملک کے ممتاز ماہر قانون ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ بیماری کی بنا پر کسی شخص کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینا یا نا دینا عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے۔
’’قانون تو اس معاملے میں خاموش ہے۔۔۔ اس میں عدالت ہی کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے انداز اور تجربے کے مطابق اور وکلا کے دلائل کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔‘‘
تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کرنے اور ججوں کو نظر بند کرنے کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی طرف سے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت میں چلایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ فوج کے کسی سربراہ کو اس نوعیت کے مقدمے کا سامنا ہے۔
راولپنڈی میں عسکری ادارہ برائے امراض قلب کے ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پرویز مشرف کو اینجیوگرافی کی فوری ضرورت ہے۔
سابق صدر کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت نے جمعہ کی صبح جب سماعت کا آغاز کیا تو میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش کی گئی۔
وکلاء صفائی کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کو یہ حق حاصل ہے کہ اینجیو گرافی اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی اسپتال سے کروائیں تاہم رپورٹ میں یہ سفارش نہیں کی گئی کہ سابق صدر کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھجوایا جائے۔
وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت میں کہا کہ اگر سابق صدر کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو ایسی صورت میں دیگر ملزم یا مجرم بھی عدالتوں سے ایسا ہی تقاضا کریں گے۔
راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹویٹ آف کارڈیالوجی نے اس سے قبل بھی پرویز مشرف کی صحت سے متعلق رپورٹ خصوصی عدالت میں پیش کی تھی لیکن گزشتہ سماعت کے موقع پر استغاثہ کے مطالبے پر ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دے کر اُسے ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا تھا۔
عدالت نے سماعت 29 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وکلائے استغاثہ پرویز مشرف کی طبی رپورٹ سے متعلق اپنے اعتراضات تحریری طور پر جمع کروا سکتے ہیں۔
پرویز مشرف پہلی سماعت کے موقع پر سلامتی کے خدشات کے باعث عدالت میں حاضر نا ہو سکے جب کہ اُن کے وکلاء کے مطابق دو جنوری کو عدالت جاتے ہوئے راستے ہی سے انھیں سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔
ملک کے ممتاز ماہر قانون ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ بیماری کی بنا پر کسی شخص کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینا یا نا دینا عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے۔
’’قانون تو اس معاملے میں خاموش ہے۔۔۔ اس میں عدالت ہی کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے انداز اور تجربے کے مطابق اور وکلا کے دلائل کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔‘‘
تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کرنے اور ججوں کو نظر بند کرنے کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی طرف سے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت میں چلایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ فوج کے کسی سربراہ کو اس نوعیت کے مقدمے کا سامنا ہے۔