اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے یہ پابندی فوری طور پر نا اٹھانے کا حکم دیا جائے۔
اسلام آباد —
نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ملک سے باہر جانے کی پابندی ختم کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے ہفتہ کو اپیل میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ فوج کے سابق سربراہ کے حق میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے یہ پابندی فوری نا اٹھانے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ نگراں حکومت کے دور میں گزشتہ سال سابق صدر کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا جو کہ ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتے تاہم پرویز مشرف نے کبھی اس سے اپنا نام خارج کروانے کی کوشش نا کی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو اس مسئلے پر فیصلہ دینے کا اختیار نہیں تھا اس لئے فیصلے کو عدالتی کارروائی مکمل کرنے کے بعد خارج کردیا جائے۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل چوہدری فیصل حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے موکل اس فیصلے کا دفاع کریں گے۔ ان کے بقول یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عدالت نے فیصلے کے ساتھ شرط بھی لگائی کہ حکومت 15 دن میں اس کے خلاف اپیل کرے۔
پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر کو محض الزامات کی بنیاد پر ملک سے باہر جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔
’’یہ ایک عام اصول ہے کہ الزام یا مقدمہ کسی شخص کے بنیادی حقوق پر پابندی کے لیے مناسب طرز عمل نہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمے اور الزامات لگاتے اور ،مقدمات دائر کرتے ہیں (لیکن) عدالت ایسا کرے تو قانون کا بنیادی ڈھانچہ ہی اڑ جائے گا۔‘‘
رواں ہفتے ہی سندھ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام ان افراد کی فہرست سے نکالا جائے جو کہ ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ تاہم عدالت نے وفاق کو اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے 15 دن کی مہلت دی تھی۔
فوج کے سابق سربراہ کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے علاوہ 2007 میں آئین معطل کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔
پرویز مشرف اپنے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ 2007 کا فیصلہ انھوں نے اس وقت کے سیاسی و عسکری رہنماؤں سے مشاورت کے بعد کیا اور صرف ان کے خلاف کارروائی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہو گی۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ فوج اپنے سابق سربراہ کے خلاف اس کارروائی پر نالاں ہے۔ پرویز مشرف نے 1999 میں بطور فوج کے سربراہ نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تھا تاہم اب حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر کے خلاف عدالتی کارروائی کی وجہ ’’کوئی داتی عناد نہیں‘‘۔
اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے ہفتہ کو اپیل میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ فوج کے سابق سربراہ کے حق میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے یہ پابندی فوری نا اٹھانے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ نگراں حکومت کے دور میں گزشتہ سال سابق صدر کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا جو کہ ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتے تاہم پرویز مشرف نے کبھی اس سے اپنا نام خارج کروانے کی کوشش نا کی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو اس مسئلے پر فیصلہ دینے کا اختیار نہیں تھا اس لئے فیصلے کو عدالتی کارروائی مکمل کرنے کے بعد خارج کردیا جائے۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل چوہدری فیصل حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے موکل اس فیصلے کا دفاع کریں گے۔ ان کے بقول یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عدالت نے فیصلے کے ساتھ شرط بھی لگائی کہ حکومت 15 دن میں اس کے خلاف اپیل کرے۔
پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر کو محض الزامات کی بنیاد پر ملک سے باہر جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔
’’یہ ایک عام اصول ہے کہ الزام یا مقدمہ کسی شخص کے بنیادی حقوق پر پابندی کے لیے مناسب طرز عمل نہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمے اور الزامات لگاتے اور ،مقدمات دائر کرتے ہیں (لیکن) عدالت ایسا کرے تو قانون کا بنیادی ڈھانچہ ہی اڑ جائے گا۔‘‘
رواں ہفتے ہی سندھ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام ان افراد کی فہرست سے نکالا جائے جو کہ ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ تاہم عدالت نے وفاق کو اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے 15 دن کی مہلت دی تھی۔
فوج کے سابق سربراہ کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے علاوہ 2007 میں آئین معطل کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔
پرویز مشرف اپنے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ 2007 کا فیصلہ انھوں نے اس وقت کے سیاسی و عسکری رہنماؤں سے مشاورت کے بعد کیا اور صرف ان کے خلاف کارروائی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہو گی۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ فوج اپنے سابق سربراہ کے خلاف اس کارروائی پر نالاں ہے۔ پرویز مشرف نے 1999 میں بطور فوج کے سربراہ نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تھا تاہم اب حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سابق فوجی صدر کے خلاف عدالتی کارروائی کی وجہ ’’کوئی داتی عناد نہیں‘‘۔