نیب آرڈیننس: 'منی لانڈرنگ اور فراڈ کے مقدمات اب تیزی سے نمٹائے جا سکیں گے'

  • قمر عباس جعفری

قومی احتساب عدالت کی عمارت۔ 11 جون، 2019ء فائل فوٹو

پاکستان میں نئے نیب آرڈینینس کے تحت نیب کو چھہ اکتوبر سے قبل دائر ہونے والے منی لانڈرنگ اور فراڈ کے مقدمات کی تحقیقات کی اجازت ہوگی۔ اس متعلق قانونی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے نیب کے تفتیش کاروں کے اختیارات میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور نیب کے وکلاء کو اس بات کا اختیار ہو گا کہ اگر کوئی کیس مضبوط نہیں ہے تو وہ اسے اس وقت تک آگے بڑھانے سے روک دیں جب تک ٹھوس ثبوت موجود نہ ہو۔

ممتاز ماہر قانون، قاضی مبین نے اس آرڈینینس کے بارے میں بتایا کہ کسی بھی ادارے کو اگر لا محدود اختیارات دے دئے جائیں جیسے کہ نیب کے پاس پہلے تھے کہ اس کے تحقیقات کنندگان جس کو چاہتے اٹھا لیتے، 90 دن اپنی تحویل میں رکھتے اور کمزور ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں میں کیس بھیجتے جہاں سے ان کو ریلیف مل جاتا یا ثبوت نہ ہونے کی بنا پر انہیں چھوڑ دیا جاتا۔

قاضی میبن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف اس سے کچھ حاصل نہ ہوتا، بلکہ اس سے عام آدمی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے تحقیقات کرنے والے ذاتی حیثیت میں کتنا فائدہ اٹھاتے تھے، اس کا پتا ان تحقیقات کرنے والوں کے اپنے اثاثوں کی تحقیقات کرکے چلایا جا سکتا ہے۔

قاضی مبین نے کہا اب نیب کے وکلا کو زیادہ اختارات دیے گئے ہیں کہ تحقیقات کرنے والے جو بھی کیس لائیں گے یہ وکلاء پہلے اسکا جائزہ لیں گے۔ کیس قانونی طور پر مضبوط ہوگا تو وہ اسے عدالت میں جانے کی اجازت دیں گے یا تحقیقات کرنے والوں سے مزید ثبوت فراہم کرنے کو کہیں گےاور انکا فیصلہ حتمی ہو گا۔

اپوزیشن کی جماعتوں کے اس موقف کے بارے میں کہ یہ آرڈینینس حکومتی شخصیات کو این آر او دینے کے مترادف ہے، قاضی مبین نے کہا کِہ حقیقت یہ ہے کہ اس آرڈینینس میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر قانون کے تحت کسی حکومتی فرد کو کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار تھا اور وہ یہ فیصلہ کرتا ہے اور اس فیصلے سے کوئی نقصان ہوتا ہے، لیکن فیصلہ کرنے والے شخص کو اس سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، نہ اسکے ذریعے وہ کسی کو کوئ فائدہ پہنچاتا ہے، تو نیب اسکی گرفت نہیں کرسکے گا۔

اور بقول ان کے، ہر قانون میں action in good faith کا تحفظ فیصلہ کرنے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس سے این آر او کس طرح ملے گا۔

نیب پنجاب کے سابقہ سربراہ، بریگیڈیر فاروق حمید نے نئے آرڈینینس کے بارے میں کہا کہ ان کے خیال میں یہ بات یقیناً تشویش کی ہے کہ نئے ترمیمی آرڈینینس میں کہا گیا ہے کہ چھہ اکتوبر کے بعد جو کیسز ہوں گے ان میں سرکاری افسران اور وزراء وغیرہ کے خلاف اس وقت تک جب تک کہ نیب کے پاس ٹھوس ثبوت نہ ہو کہ جو فیصلہ انہوں کیا ہے اس سے ان کو مالی فائدہ پہنچا ہے، اس وقت تک ان پر مقدمہ نہیں چل سکتا اور اس پر تحفظات بھی درست ہیں۔

بریگیڈیر فاروق حمید نے کہا کہ ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس کے تحت احتساب عدالت کو ضمانت کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ پہلے ضمانت کے لئےہائی کورٹ سے رجوع کرنا ہوتا تھا، جہاں سیاسی وابستگیاں کام آتیں اور فوراً ضمانت مل جاتی تھی۔ لیکن، اب احتساب عدالتوں سےسیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ضمانت حاصل کرنا اتنا آسان نہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نیب نے بقول انکے ملک کے متعددبڑے بڑے لوگوں کے خلاف اچھے مقدمات تیار کئے ہیں۔ لیکن یہ مقدمات برسوں چلتے رہتے ہیں۔ اور ملزمان عیش کرتے رہتے ہیں۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ احتساب عدالتیں تیز رفتاری سے سماعت کریں اور ایک مقررہ مدت کے اندر ان مقدمات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائیں جو چند ماہ سے زیادہ نہ ہو۔

نیب چیرمین کی تقرری کے طریقہ کار کے بارے میں انھوں نے کہا یہ تحفظات بالکل بجا ہیں کہ جب وزیر اعظم اسے نامزد کریں گے اور صدر اسکی منظوری دیں گے، تو نیب براہ راست حکومت کے تحت آجائے گا۔ جس سے اس کی خود مختاری متاثر ہوگی۔

لیکن، بقول ان کے، یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں جب بھی چیرمین نیب کی تقرری کا مسئلہ درپیش ہوتا تو ایک بحران اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور اپوزیشن اور اس وقت کے وزیر اعظم کے درمیان اتفاق رائے حاصل کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور شاید اسی لئے یہ طریقہ کار اختیار کرنا پڑا۔