نادرا کے چیئرمین طارق ملک کے مطابق تصدیق کرانے والے امیدوار کو ہر ووٹ کی تصدیق پر کم از کم دس روپے ادا کرنا ہوں گے۔
اسلام آباد —
وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے کوائف کے اندراج کرنے والے قومی ادارے نادرا کو ہدایت جاری کی ہے کہ آئندہ دس دن میں ووٹوں کی تصدیق کے عمل کو موثر اور فعال بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
انھوں نے اس ضمن میں مزید سافٹ وئیرز اور آلات کی خریداری کے لیے نو کروڑ روپے جاری کئے ہیں اور ہدایت دی ہے کہ خریداری کے عمل کو تیز بنانے کے لئے نادرا یہ آلات اور سافٹ ویئیر کمپنیوں سے براہ راست خریدیں۔
نادرا کے تیار کردہ جدید نظام کے تحت حکام کے بقول بیلٹ پیپر پر مخصوص سیاہی سے لگائے گئے انگوٹھے کے نشان سے اس بات کی تصدیق ہوسکتی ہے کہ آیا ووٹ ڈالنے والا وہی شخص ہے جس کے نام پر ووٹ رجسٹر ہوا ہے یا نہیں۔
ادارے کے چیئرمین طارق ملک کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے استعداد کار میں اضافے سے ایک دن میں پانچ لاکھ ووٹوں کی تصدیق ہو سکے گی۔
’’ہم نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ میگناٹائیزڈ سیاہی استعمال کی جائے اور ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ اب جب ہمارے پاس وہ آئیں گے تو ہم دیکھیں گے کہ وہی سیاہی استعمال ہوئی تو ہی ہم یہ عمل کر سکیں گے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ تصدیق کا عمل صرف انتخابی ٹربیونل کی ہدایت پر کیا جائے گا۔
نادرا کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابات کے پیش نظر گزشتہ سال بھی کئی مرتبہ الیکشن کمیشن سے تصدیق کے نظام کو وسعت دینے کی سفارشات کی گئیں مگر اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
طارق ملک کے مطابق تصدیق کرانے والے امیدوار کو ہر ووٹ کی تصدیق پر کم از کم دس روپے ادا کرنا ہوں گے۔
چند سیاسی جماعتوں نے امیدواروں سے تصدیق کی فیس وصول کرنے کی مخالفت کی ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر علی اصغر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسے ’’غیر منصفانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے متوسط طبقے کے امیدوار مستفید نہیں ہو سکیں گے۔
’’جو اخراجات برداشت کر سکتا ہے اس کے لیے یہ ہے۔ الیکشن کمیشن اگر کوئی کام کرتا ہے تو لوگوں پر ڈالنے کی بجائے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے برداشت کرے‘‘
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اب تک یہ تفصیلات ہی جاری نہیں کی کہ انتخاب کے دن کتنے بیلٹ پیپرز جاری کیے گئے اور کتنے ڈبوں میں سے نکلے۔
’’ہمارے خدشات ہیں کہ بیلٹ پیپرز جعلی چھپتے ہیں۔ ان پر مہریں لگائی جاتی ہیں۔ ایک کی بجائے لوگ دس دس ڈبوں میں ڈالتے ہیں۔ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ اسے روکتے۔‘‘
11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف امیدواروں نے الیکشن کمیشن میں شکایات جمع کروا رکھی ہے جبکہ گزشتہ روز ہی تحریک انصاف سمیت چند جماعتوں نے اس بارے میں اپنے احتجاج عارضی طور پر ختم کیے ہیں۔
انھوں نے اس ضمن میں مزید سافٹ وئیرز اور آلات کی خریداری کے لیے نو کروڑ روپے جاری کئے ہیں اور ہدایت دی ہے کہ خریداری کے عمل کو تیز بنانے کے لئے نادرا یہ آلات اور سافٹ ویئیر کمپنیوں سے براہ راست خریدیں۔
نادرا کے تیار کردہ جدید نظام کے تحت حکام کے بقول بیلٹ پیپر پر مخصوص سیاہی سے لگائے گئے انگوٹھے کے نشان سے اس بات کی تصدیق ہوسکتی ہے کہ آیا ووٹ ڈالنے والا وہی شخص ہے جس کے نام پر ووٹ رجسٹر ہوا ہے یا نہیں۔
ادارے کے چیئرمین طارق ملک کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے استعداد کار میں اضافے سے ایک دن میں پانچ لاکھ ووٹوں کی تصدیق ہو سکے گی۔
’’ہم نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ میگناٹائیزڈ سیاہی استعمال کی جائے اور ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ اب جب ہمارے پاس وہ آئیں گے تو ہم دیکھیں گے کہ وہی سیاہی استعمال ہوئی تو ہی ہم یہ عمل کر سکیں گے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ تصدیق کا عمل صرف انتخابی ٹربیونل کی ہدایت پر کیا جائے گا۔
نادرا کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابات کے پیش نظر گزشتہ سال بھی کئی مرتبہ الیکشن کمیشن سے تصدیق کے نظام کو وسعت دینے کی سفارشات کی گئیں مگر اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
طارق ملک کے مطابق تصدیق کرانے والے امیدوار کو ہر ووٹ کی تصدیق پر کم از کم دس روپے ادا کرنا ہوں گے۔
چند سیاسی جماعتوں نے امیدواروں سے تصدیق کی فیس وصول کرنے کی مخالفت کی ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر علی اصغر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسے ’’غیر منصفانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے متوسط طبقے کے امیدوار مستفید نہیں ہو سکیں گے۔
’’جو اخراجات برداشت کر سکتا ہے اس کے لیے یہ ہے۔ الیکشن کمیشن اگر کوئی کام کرتا ہے تو لوگوں پر ڈالنے کی بجائے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے برداشت کرے‘‘
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اب تک یہ تفصیلات ہی جاری نہیں کی کہ انتخاب کے دن کتنے بیلٹ پیپرز جاری کیے گئے اور کتنے ڈبوں میں سے نکلے۔
’’ہمارے خدشات ہیں کہ بیلٹ پیپرز جعلی چھپتے ہیں۔ ان پر مہریں لگائی جاتی ہیں۔ ایک کی بجائے لوگ دس دس ڈبوں میں ڈالتے ہیں۔ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ اسے روکتے۔‘‘
11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف امیدواروں نے الیکشن کمیشن میں شکایات جمع کروا رکھی ہے جبکہ گزشتہ روز ہی تحریک انصاف سمیت چند جماعتوں نے اس بارے میں اپنے احتجاج عارضی طور پر ختم کیے ہیں۔