پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ اور نوجوان سائنس دانوں کو اپنا روزگار خود پیدا کرنے اور ملازمتیں حاصل کرنے میں مدد کے لیے اس وقت ملک میں کئی نجی ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں نیشنل اکیڈمی آف ینگ سائنٹسٹس بھی شامل ہے۔
اس اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر آفتاب احمد نے گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں شرکت کی اور یہ بتایا کہ ان کا ادارہ نوجوان سائنس دانوں کی رہنمائی اور تربیت کے لیے کیا پروگرام چلا رہا ہے۔
انہوں نےکہا کہ اس وقت دنیا کے 40 سے زیادہ ملکوں میں نیشنل ینگ سائنسٹس اکیڈمیز بن چکی ہیں۔ پاکستان میں اس اکیڈمی کا قیام 2009 میں عمل میں آیا تھا، جس کا مقصد ملک میں سائنس کی یونیورسٹیوں اور سائنسی اداروں کے ساتھ مل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ میں مدد دینا تھا۔
نیشنل اکیڈمی آف ینگ سائنٹسٹس پاکستان کے اندر او ر بیرون ملک مقیم پاکستانی اور غیر ملکی سائنسی ماہرین کو ملک میں بلا کر سائنس کے ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام کرتی ہے۔
پاکستان میں اب تک ایسے سائنسی موضوعات پر ملک کے مختلف حصوں میں ڈیڑھ سے سو زیادہ ورکشاپس منعقد کرائی چکی ہیں جن کے بارے میں پاکستان میں زیادہ معلومات موجود نہیں تھیں۔
ڈاکٹر آفتاب نے ملک میں سائنسی ریسرچ اور انوویشن کے فروغ کا ذکر کرتے ہوئے کہ ان کے ادارے نے ایک ریسرچ اینڈ انوویشن کلب بنایا ہے جس کا مقصد سائنس کے شعبے کے چھوٹے چھوٹے آئیڈیاز کی ٹرانسلیشن میں مدد دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ پاکستان کے سائنس کے شعبے کے طالب علموں اور نوجوانوں کو انٹری پرینیورشپ کے فروغ میں مدد کے لیے بھی کام کر رہا ہے اور پاکستان کی یونیورسٹیوں میں قائم بزنس کی تربیت کے شعبوں کے ساتھ مل کر نوجوانوں کو سائنس کے شعبے میں کاروبار کے طریقے سکھانے میں مدد کر رہا ہے۔
اپنے آئندہ پراجیکٹس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ وہ جلد ہی پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں انو ویشن لیبز قائم کریں گے جہاں ریسر چ کے آئیڈیاز کو حقیقی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی اور نوجوان سائنس دانوں کو اپنے اپنے آئیڈیاز پر عمل کے لئے وسائل اور مواقع دستیاب ہوں گے۔