پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام سے متعلق مسودۂ قانون کی منظوری دے دی ہے جس میں خاص طور پر خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کو روکنے پر توجہ دی گئی ہے۔
قومی اسمبلی سے بدھ کو منظور ہونے والے مسودۂ قانون میں کہا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
مسودہ قانون میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں اور جرمانہ تجویز کیا گیا ہے اور خاص طور پر خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لیے اضافی سزا تجویز کی گئی ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والے سرگرم کارکن اور وکیل ضیا اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کو کوششیں کرنا ہوں گی۔
"پاکستان کی پارلمینٹ کا یہ خوش آئند اقدام ہے کہ اُنھوں نے اس بل میں بچوں اور خواتین پر خاص توجہ مرکوز کی ہے لیکن ایسے قوانین پر عمل درآمد پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔"
واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ چار برسوں سے انسانی اسمگلنگ سے متعلق امریکی محکمۂ خارجہ کی واچ لسٹ میں ہے۔ اس فہرست کے جس حصے میں پاکستان کو رکھا گیا ہے ان میں وہ ممالک شامل ہیں جن کی حکومتیں امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کوششیں تو کر رہی ہیں لیکن وہ اس بارے میں وضع کردہ کم سے کم معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
پاکستان سے ہر سال ہزاروں افراد غیر قانونی طریقوں سے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جاتے ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق صرف گزشتہ سال 6767 پاکستانی غیر قانونی طریقے سے یورپی ممالک گئے تھے جب کہ ہزاروں ایسے دیگر افراد کو مختلف ممالک نے ملک بدر کر کے پاکستان واپس بھیج دیا تھا۔