وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملکی مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
جمعے کو وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیرِ مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار ، وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر عسکری حکام شریک ہوئے۔
انٹیلی جنس اداروں نے ملک میں امن وامان کی مجموعی صورتِ حال پر بریفنگ دی اور دہشت گردی کی حالیہ لہر سے متعلق عوامل اور ان کے سدِباب کے اقدامات سے اجلاس کو آگاہ کیا۔
وزیر ِمملکت خارجہ حنا ربانی کھر نے افغانستان کی صورتِ حال پر اجلاس کو بریفنگ دی اور پاکستان کے افغانستان میں طالبان حکومت سے ہونے والے رابطوں سے آگاہ کیا۔
اعلامیے کے مطابق وزیرِ خزانہ نے ملک کی معاشی صورتِ حال پر شرکا کو بریفنگ دی۔
شرکا نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جاری رکھنے پر اتفاق کیا جس کا دوسرا راؤنڈ پیر کو ہو گا۔
اجلاس کے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق نے اجلاس نے دوٹوک رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان کے قومی مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی اور نہ ہی کسی کو بھی قومی سلامتی کے کلیدی تصور کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیں گے۔ پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرات وبہادری، مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیاجائے گا۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کے مطابق اجلاس میں خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کے بڑھتے واقعات اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کی سرگرمیاں بھی اجلاس میں زیر غور آئیں۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ہفتےوائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ناگزیر ہے لیکن اس کا فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی کرے گی۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ایسے موقع پر ہو ا جب خیبر پختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی، بلوچستان میں عسکریت پسند علیحدگی پسند تنظیموں اور پڑوسی ملک افغانستان پر سرحد پار سے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
SEE ALSO: مصلحت یا حکمتِ عملی؟ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملوں سے کیوں نہیں روکتے؟جمعرات کو تشدد کا تازہ ترین واقعہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے سرحدی علاقے میں پیش آیا جس میں عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں تین سیکیورٹی اہل کار ہلاک اور 10 زخمی ہوئے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین فور میں حال ہی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد شہر کے فائیو اسٹار ہوٹلز میں دہشت گردی کے خدشات کے پیشِ نظر پولیس نے نیا سیکیورٹی پلان جاری کردیا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی نے مذکورہ خودکش دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاس کوئی منظم علاقہ موجود نہیں ہے لیکن ان کی کارروائیاں صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور حتیٰ کہ اسلام آباد تک پھیل گئی ہیں۔ ایسے میں سیکیورٹی فورسز کے لیے ان کی روک تھام بڑے چیلنج سے کم نہیں۔
پاکستان کی جانب سے یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں موجود ہے جہاں سے وہ پاکستان میں حملوں کے احکامات جاری کرتی ہے۔ ان حملوں کو روکنے کے لیے ماضی قریب میں افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں جو سود مند ثابت نہیں ہو سکے۔