شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ عمراں خان اور وہ اسلام آباد میں یورپی یونین اور نیٹو کے سفراء سے ملیں گے اور پاکستانی عوام کا موقف پیش کریں گے۔
اسلام آباد —
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کے طور پر خیبرپختونخواہ کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد بدستور بند رکھی جائے گی جس کی توثیق جماعت کی اعلیٰ قیادت نے بھی کردی ہے۔
ملتان میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کے خلاف مہم کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین آئندہ جمعرات پارلیمان میں اس احتجاج پر اپنا موقف پیش کریں گے۔ انہوں نے حکومت سے بھی اس کی تائید کرنے کا مطالبہ کیا۔
’’تجارت کے ٹرکوں کو نہیں روکا جارہا۔ معمول کی کمرشل ایکٹویٹی کو نہیں روکا جا رہا۔ عمران خان اور میں دونوں جتنے بھی ہمارے یورپی یونین اور نیٹو کے سفراء ہیں ان سے ملیں گے اور پاکستانی عوام کا موقف پیش کریں گے جو کہ کاش وزیر خارجہ کردیتے۔‘‘
ادھر قدامت پسند مذہبی جماعتوں پر مشتمل دفاع پاکستان کونسل نامی اتحاد کے زیر اہتمام لاہور میں اتوار کو ایک اجتماع ہوا جس میں بھی مقررین نے امریکہ سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ ایک ہفتے سے تحریک انصاف کے کارکن پشاور سے افغان سرحد تک جانے والے تمام راستوں پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
عمران خان کی جماعت نے اس احتجاج کا اعلان گزشتہ ماہ ہونے والے امریکی ڈرون حملے کے بعد کیا جس میں القاعدہ سے منسلک شدت پسند کمانڈر حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت کے بقول اس حملے سے پاکستانی عسکریت پسندوں سے اس کی مذاکرات کی کوشش متاثر ہوئی ہے۔
تاہم حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی طرح نواز شریف حکومت اور اس کے اتحادی تحریک انصاف کے اس احتجاج کے طریقے کی مخالفت کرتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما اور قانون ساز افراسیاب خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تحریک انصاف کے احتجاج کو ’’تماشہ‘‘ قرار دیا۔
’’ابھی تو نیٹو والے افغانستان سے نکل رہے ہیں تو یہ عمل ایسا ہے جیسے ہم چاہ رہے ہیں کہ وہ نا جائیں۔ نعرہ آپ ایک لگائیں، سگنل آپ بائیں کا دیں اور چلے جائیں دائیں کی طرف۔ ایسے تماشوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘
سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں ’’بڑے سیانے ہیں نیٹو رسد کی بندش کی مہم تب چلائی جب ہو یہ ہو ہی نہیں رہی۔‘‘
سیاسی اور خارجہ امور کے ماہر حسن عسکری رضوی کے مطابق تحریک انصاف کے احتجاج کا مقصد بظاہر سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے ۔
’’پہلے ایم ایم اے کے دور میں جماعت اسلامی کے کارکن اسلام نافذ کرنے کی کارروائیاں کرتے تھے اور اب یہ سیاسی جماعت کے۔ امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دے کر عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کہ بڑا پاپولر طریقہ ہے یہاں۔ مگر دنیا میں آپ کی ساکھ خراب ہوگی کہ ریاست عالمی برادری سے کیے وعدے کو پورا نہیں کرسکتی۔‘‘
افغانستان کے لیے تجارت اور وہاں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی افواج کی رسد پاکستان کے دو زمینی راستوں سے ہوتی ہے جن میں ایک شمال مغرب میں طورخم اور صوبہ بلوچستان میں چمن باڈر ہیں۔
سرکاری عہدیداروں کے مطابق افغانستان کے لیے مال بردار ٹرکوں کی آمدورفت چمن کے راستے بدستور جاری ہے۔
ملتان میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کے خلاف مہم کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین آئندہ جمعرات پارلیمان میں اس احتجاج پر اپنا موقف پیش کریں گے۔ انہوں نے حکومت سے بھی اس کی تائید کرنے کا مطالبہ کیا۔
’’تجارت کے ٹرکوں کو نہیں روکا جارہا۔ معمول کی کمرشل ایکٹویٹی کو نہیں روکا جا رہا۔ عمران خان اور میں دونوں جتنے بھی ہمارے یورپی یونین اور نیٹو کے سفراء ہیں ان سے ملیں گے اور پاکستانی عوام کا موقف پیش کریں گے جو کہ کاش وزیر خارجہ کردیتے۔‘‘
ادھر قدامت پسند مذہبی جماعتوں پر مشتمل دفاع پاکستان کونسل نامی اتحاد کے زیر اہتمام لاہور میں اتوار کو ایک اجتماع ہوا جس میں بھی مقررین نے امریکہ سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ ایک ہفتے سے تحریک انصاف کے کارکن پشاور سے افغان سرحد تک جانے والے تمام راستوں پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
عمران خان کی جماعت نے اس احتجاج کا اعلان گزشتہ ماہ ہونے والے امریکی ڈرون حملے کے بعد کیا جس میں القاعدہ سے منسلک شدت پسند کمانڈر حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت کے بقول اس حملے سے پاکستانی عسکریت پسندوں سے اس کی مذاکرات کی کوشش متاثر ہوئی ہے۔
تاہم حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی طرح نواز شریف حکومت اور اس کے اتحادی تحریک انصاف کے اس احتجاج کے طریقے کی مخالفت کرتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما اور قانون ساز افراسیاب خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تحریک انصاف کے احتجاج کو ’’تماشہ‘‘ قرار دیا۔
’’ابھی تو نیٹو والے افغانستان سے نکل رہے ہیں تو یہ عمل ایسا ہے جیسے ہم چاہ رہے ہیں کہ وہ نا جائیں۔ نعرہ آپ ایک لگائیں، سگنل آپ بائیں کا دیں اور چلے جائیں دائیں کی طرف۔ ایسے تماشوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘
سیاسی و مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں ’’بڑے سیانے ہیں نیٹو رسد کی بندش کی مہم تب چلائی جب ہو یہ ہو ہی نہیں رہی۔‘‘
سیاسی اور خارجہ امور کے ماہر حسن عسکری رضوی کے مطابق تحریک انصاف کے احتجاج کا مقصد بظاہر سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے ۔
’’پہلے ایم ایم اے کے دور میں جماعت اسلامی کے کارکن اسلام نافذ کرنے کی کارروائیاں کرتے تھے اور اب یہ سیاسی جماعت کے۔ امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دے کر عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کہ بڑا پاپولر طریقہ ہے یہاں۔ مگر دنیا میں آپ کی ساکھ خراب ہوگی کہ ریاست عالمی برادری سے کیے وعدے کو پورا نہیں کرسکتی۔‘‘
افغانستان کے لیے تجارت اور وہاں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی افواج کی رسد پاکستان کے دو زمینی راستوں سے ہوتی ہے جن میں ایک شمال مغرب میں طورخم اور صوبہ بلوچستان میں چمن باڈر ہیں۔
سرکاری عہدیداروں کے مطابق افغانستان کے لیے مال بردار ٹرکوں کی آمدورفت چمن کے راستے بدستور جاری ہے۔