پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے جس سے نمٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان یکجہتی کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یکجہتی میں کسی بھی طرح کی دراڑ قومی نقصان کے مترادف ہو گی۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بدھ کو پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے اس جذبے کا اظہار کیا تھا کہ ریاست دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری قوت سے آگے بڑھے۔
’’اب ہم حالت جنگ میں ہیں، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدام کا تقاضہ کرتے ہیں۔ کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ پھول جیسے معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے، کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ مصوم بچے اپنی کاپیوں، کتابوں اور بستوں سمیت خون سے نہلا دیے جائیں‘‘۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ مثالی اتفاق رائے ہی سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔
’’ہمارا اتحاد و اتفاق ہی دہشت گردوں کے لیے پیغام ہے کہ اب پوری قوم دہشت گردی کے خاتمے کو اپنی جنگ سمجھ کر میدان میں نکل آئی ہے اگر خدانخواستہ اتحاد و اتفاق کی اس فصیل میں کوئی لکیر پڑھ گئی تو یہ قومی نقصان ہو گا‘‘۔
اُنھوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام سے متعلق قانون سازی کا عمل جلد مکمل ہو گا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سنگین نوعیت کے جرائم کے کئی ایسے مقدمات ہیں جن پر پندرہ بیس سالوں سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اس لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مسلح گروہوں کی اب پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں۔
’’اب پاکستان میں کسی مسلح جتھے کو کام کرنے کی اجاز ت نہیں ہو گی، کوئی گروہ طاقت کی زور پر اپنے نظریات مسلط نہیں کر سکے گا۔ کالعدم تنظیمیں اب اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں کالعدم سمجھیں، ان کو کسی بھی شکل میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی‘‘۔
16 دسمبر کو پشاور کے اسکول پر طالبان کے مہلک حملے کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ایک طویل اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف 20 نکاتی قومی لائحہ عمل کی منظوری دی گئی تھی۔
جس میں فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کا قیام بھی شامل تھا۔