پاکستان کا نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی؟ موضوع ایک بار پھر زیر بحث

  • قمر عباس جعفری

ایوان صدر، اسلام آباد (فائل فوٹو)

پاکستان میں میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر ان دنوں بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ملک کے اندر پارلیمانی نہیں بلکہ صدارتی نظام حکومت ہونا چاہیے جس میں ملک کا صدر ملک کی بہتری کے لیے اپنے طور پر اقدامات کرنے کے لیے با اختیار ہوتا ہے۔ اور اسے پارلیمانی اکثریت کی محتاجی نہیں ہوتی اور اس حوالے سے صدارتی نظام کے حامی امریکہ کے صدارتی نظام کی بطور خاص مثال دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ کے صدارتی نظام میں ہر چند کہ صدر آئینی طور پر اپنی کابینہ کے وزراء ارکان پارلمنٹ میں سے لینے کا پابند نہیں ہے، لیکن وہ اپنی کابینہ کے ارکان اور دوسرے اعلیٰ سفارتی اور سرکاری عہدوں کے لیے اپنے نامز کردہ لوگوں کی کانگریس سے منظوری لینے کا پابند ہے۔ اس کے علاوہ بھی زیادہ تر کام ایسے ہوتے ہیں جن میں اگر صدر اور کانگریس کے درمیان اختلاف ہو تو صدارتی فرمان کے ذریعے کام چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ ایک مخصوص مدت تک چل سکتا ہے اور آخر کار منظوری کے لیے کانگریس کے پاس آنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں نظام میں تبدیلی کے حوالے سے جو بحث چل رہی ہے وہ بہت متنوع ہے اور سیاسی امور کے ماہر اور آئینی اور قانونی امور پر نظر رکھنے والے اس سلسلے میں مختلف خیالات رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ایک کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس قسم کی مباحثے چلتے رہتے ہیں خاص طور اس وقت جب پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹنی ہو تو اس قسم کی باتیں کی جاتی ہیں کہ اس نظام میں چونکہ وزیر اعظم پابند ہوتا ہے ارکان پارلمنٹ کی حمایت کا اس لیے وہ کام نہیں کر پاتا جبکہ صدارتی نظام میں جیسے کہ امریکہ میں ہے، صدر اپنے طور پر بہت سارے کام کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس لیے وہ ملک کو بہتر طور پر چلا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ارکان پارلیمنٹ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا، کیونکہ اس کے سر پر تحریک عدم اعتماد کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ جبکہ صدارتی نظام میں صدر کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ میں اس کی پارٹی کی اکثریت نہ بھی ہو تب بھی اس کی صدارت کو کسی تحریک عدم اعتماد کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اور کسی بہت بڑی غلطی کی صورت میں زیادہ سے زیادہ اسکے خلاف مواخذے کی کارروائی پارلیمنٹ یا کانگریس کر سکتی ہے۔ مگر اس کا امکان بہت کم ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک طویل طریقہ کار ہے اس لیے صدر پورے اعتماد سے قومی بہبود اور ملکی مفاد کے کاموں میں مصروف رہ سکتا ہے۔

پاکستان نے قبل ازیں جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک صدارتی نظام حکومت کے چار ادوار دیکھے ہیں جن میں چاروں بار فوجی جنرلوں نے صدارتی فرائض انجام دیے جن کے پاس مکمل اختیارات تھے اور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے بقول، ان ادوار میں پاکستان نے کچھ خاص حاصل نہیں کیا۔

’’اگر اس نظام سے کچھ حاصل ہوا ہوتا تو آج پاکستان اس حالت میں نہ ہوتا‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ صدارتی یا پارلیمانی نظام سے قطع نظر پاکستان کے مسائل کا سادہ حل پارلیمانی نظام کے اندر متناسب نمائندگی کا نظام ہے، جس میں حلقوں کی سیاست لوکل باڈیز کے پاس چلی جاتی ہے اور قانون سازی مجلس قانون ساز کے پاس آجاتی ہے۔ اور مقامی سطح پر تعمیر و ترقی کے لیے مرکز کی سطح پر قانون سازوں کی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔

اس سلسلے میں مبصرین بطور خاص اٹھارویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہیں جس کے تحت وفاق کو ایک خاص رقم صوبوں کو دینا پڑتی ہے اور وفاق کو ان سب ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھاری قرضے لینے پڑتے ہیں اور ملک قرضوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ قرضوں کی واپسی کے سلسلے میں صوبوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اور اس حوالے سے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے بعض آئینی ترامیم لانے کی کوششیں ہو رہی ہے اور اسی تسلسل میں بارگینگ چپ (bargaining chip) یعنی ’دے لے‘ کے طور پر صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ اگر وہ ترامیم نہیں منظور ہوتیں تو پھر صدارتی نظام لایا جائے۔ جس میں صوبوں میں وزراء اعلیٰ کی بجائے گورنرز ہوں گے جو صدر کے احکامات کے پابند ہوں گے۔ اور یوں صوبوں اور مرکز کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا ہو سکے گی۔

احمد بلال محبوب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی فارمولا نہیں ہے کہ صدارتی نظام ہی مسائل کا حل ہے یا پارلیمانی نظام حل ہے۔ یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ انداز فکر ہے۔ پاکستان میں بار بار صدارتی نظام بھی آزمایا جا چکا ہے۔ جن ملکوں کی گورننس اچھی ہے، نظام اچھا چل رہا ہے ان میں سے کئی ایک میں صدارتی نظام ہے اور کئی میں پارلیمانی نظام۔ سارا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ چلانے والے کون لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں متعدد آئینی تبدیلیوں کے بعد اب وزیر اعظم کے پاس بھی خاصے اختیارات ہیں۔ مثلاً صدارتی انتخاب کی وکالت کرنے والے کہتے ہیں کہ صدر اپنی کابینہ ارکان پارلیمان سے منتخب کرنے کا پابند نہیں ہو گا۔ پاکستان میں اس کا حل یہ نکال لیا گیا ہے کہ وزیر اعظم جتنے چاہے مشیر رکھ سکتا ہے۔ جن کا رکن پارلمنٹ ہونا ضروری نہیں ہے۔ آج آپ دیکھ لیں کہ وزیر اعظم کے کتنے مشیر اور معاونین کام کر رہے ہیں۔ گویا وزیر اعظم کے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کے لوگ اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے نہیں رکھ سکتا۔

صدارتی نظام کے حامی یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو ارکان پارلیمان کی جانب سے دباؤ اور بلیک میلنگ کا سامنا ہوتا ہے جو صدارتی نظام میں نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں آئینی ترمیم کے ذریعے ارکان پارلیمان بعض صورتوں کے علاوہ بیشتر صورتوں میں پابند ہوتے ہیں کہ وہ پارٹی کی ہدایات کے مطابق ووٹ کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان پر انحراف ہونے کی شق (Defection clause) لاگو ہو جائے گی اور وہ اپنی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اسی لیے ہاکستان میں کسی وزیر اعظم کے خلاف کسی تحریک اعتماد کی کامیابی کی مثال شاذ ہی ملتی ہے۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد ایک ایسا نظام بن گیا ہے جو متوازن ہے۔ تو ان حالات میں صدارتی بحث کے آغاز کا مقصد، بقول ان کے، اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بعض اہم مسائل کی طرف سے توجہ کو ہٹایا جائے۔

ملک میں صدارتی نظام لانے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ جس کے لیے اس وقت تو پارلیمان میں حکومت کے پاس وہ اکثریت نظر نہیں آتی کہ یہ ترمیم منظور کرائی جا سکے۔ اس لیے ماہرین کے بقول اس وقت تو یہ بحث لا حاصل معلوم ہوتی ہے۔ یا ممکن ہے کہ اس بحث کا آغاز کروانے والوں کے ذہن میں کوئی متبادل طریقہ ہو۔