وزیرداخلہ چودھری نثار نے تحریک طالبان پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ "دوسری جانب کی واضح اکثریت امن اور مذاکرات چاہتی اور پاکستان سے دشمنی نہیں چاہتی۔"
پاکستان کے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مذاکراتی عمل کو تیز اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے دوسرے فریق سے جلد براہ راست مذاکرات ہوں گے۔
قومی اسمبلی میں جمعرات کو خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے اور آئندہ ہفتے سے براہ راست مذاکرات شروع کرنا حکومت کا ہدف ہے۔
وزیرداخلہ نے تحریک طالبان پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ "دوسری جانب کی واضح اکثریت امن اور مذاکرات چاہتی اور پاکستان سے دشمنی نہیں چاہتی۔"
"انھیں پاکستان سے شکایات ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ سابقہ حکومت یعنی پرویز مشرف کی حکومت نے اس سے بہت زیادتیاں کیں۔ وہ حکومت کے دشمن ہو سکتے ہیں پاکستان کے دشمن نہیں۔"
چودھری نثار نے کہا کہ نئی کمیٹی مذاکرات کے خدوخال کو بالکل واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس تاثر کو بھی ختم کرنے کے لیے دوسرے فریق سے رابطہ کرے گی کہ مذاکرات آئین پر سمجھوتہ کرکے یا کسی کمزور حیثیت سے کیے جارہے ہیں۔
ان کے بقول وزیراعظم آئندہ ہفتے چاروں وزرائے اعلیٰ کے ایک اجلاس کی صدارت کریں گے تاکہ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کے لیے ان کے ساتھ تعاون یقینی بنایا جاسکے۔
تاہم انھوں نے حکومت کی موجودہ مذاکراتی کمیٹی کے مستقبل کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔
جمعرات ہی کو حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں نے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے دروازہ کھل چکا ہے لہذا وہ سمجھتے ہیں اب فیصلہ سازی کا مرحلہ آگیا ہےاور مذاکراتی عمل میں اب 'مقتدر قوتوں' کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
قومی اسمبلی میں جمعرات کو خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے اور آئندہ ہفتے سے براہ راست مذاکرات شروع کرنا حکومت کا ہدف ہے۔
وزیرداخلہ نے تحریک طالبان پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ "دوسری جانب کی واضح اکثریت امن اور مذاکرات چاہتی اور پاکستان سے دشمنی نہیں چاہتی۔"
"انھیں پاکستان سے شکایات ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ سابقہ حکومت یعنی پرویز مشرف کی حکومت نے اس سے بہت زیادتیاں کیں۔ وہ حکومت کے دشمن ہو سکتے ہیں پاکستان کے دشمن نہیں۔"
چودھری نثار نے کہا کہ نئی کمیٹی مذاکرات کے خدوخال کو بالکل واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس تاثر کو بھی ختم کرنے کے لیے دوسرے فریق سے رابطہ کرے گی کہ مذاکرات آئین پر سمجھوتہ کرکے یا کسی کمزور حیثیت سے کیے جارہے ہیں۔
ان کے بقول وزیراعظم آئندہ ہفتے چاروں وزرائے اعلیٰ کے ایک اجلاس کی صدارت کریں گے تاکہ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کے لیے ان کے ساتھ تعاون یقینی بنایا جاسکے۔
تاہم انھوں نے حکومت کی موجودہ مذاکراتی کمیٹی کے مستقبل کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔
جمعرات ہی کو حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں نے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے دروازہ کھل چکا ہے لہذا وہ سمجھتے ہیں اب فیصلہ سازی کا مرحلہ آگیا ہےاور مذاکراتی عمل میں اب 'مقتدر قوتوں' کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔