انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اُمیدواروں کی شمولیت کے اعلانات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو بظاہر سادہ اکثریت کے لیے درکار 137 اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں 11 مئی کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) کی قیادت حکومت سازی کے لیے مشاورت میں مصروف ہے اور کامیاب ہونے والے کئی آزاد اُمیدواروں نے بدھ کو بھی میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔
انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اُمیدواروں کی شمولیت کے اعلانات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو بظاہر سادہ اکثریت کے لیے درکار 137 اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔
اُدھر نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے کہا ہے کہ انتخابات کا انعقاد اُن کی حکومت کی کامیابی ہے اور قانون کے مطابق دیگر مراحل مکمل ہونے کے بعد اقتدار منتخب قیادت کو سونپ دیا جائے گا۔
نگراں کابینہ کے وزیر قانون و پارلیمانی اُمور احمر بلال صوفی نے بھی رواں ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اُن کی وزارت نے اقتدار کی منتقلی سے قبل آئین کے مطابق ضروری قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ اقتدار ایک جمہوری حکومت کے اختتام پر نئی منتخب حکومت کو سونپا جا رہا ہے لیکن نہ صرف مبصرین بلکہ عام لوگوں کا بھی کہنا ہے کہ آئندہ حکومت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔
بدھ کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ انتخابات کے ختم ہونے کے بعد اب قوم آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
’’سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں، بلکہ سارے ملک میں۔ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک یہ جنگ ختم نا ہو جو ہم نے اپنے سر پر لی ہوئی ہے۔‘‘
اُدھر اسلام آباد میں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے، دہشت گردی سمیت کئی دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔
’’ہمارے ملک میں امن و امان ہو گا تو باہر سے سرمایہ کاری بھی آئے گی۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ اُن کی اولین ترجیح معیشت کی بحالی ہو گی۔ اُنھوں نے منگل کی رات عمران خان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اُمیدواروں کی شمولیت کے اعلانات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو بظاہر سادہ اکثریت کے لیے درکار 137 اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔
اُدھر نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے کہا ہے کہ انتخابات کا انعقاد اُن کی حکومت کی کامیابی ہے اور قانون کے مطابق دیگر مراحل مکمل ہونے کے بعد اقتدار منتخب قیادت کو سونپ دیا جائے گا۔
نگراں کابینہ کے وزیر قانون و پارلیمانی اُمور احمر بلال صوفی نے بھی رواں ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اُن کی وزارت نے اقتدار کی منتقلی سے قبل آئین کے مطابق ضروری قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ اقتدار ایک جمہوری حکومت کے اختتام پر نئی منتخب حکومت کو سونپا جا رہا ہے لیکن نہ صرف مبصرین بلکہ عام لوگوں کا بھی کہنا ہے کہ آئندہ حکومت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔
بدھ کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ انتخابات کے ختم ہونے کے بعد اب قوم آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
’’سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں، بلکہ سارے ملک میں۔ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک یہ جنگ ختم نا ہو جو ہم نے اپنے سر پر لی ہوئی ہے۔‘‘
اُدھر اسلام آباد میں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے، دہشت گردی سمیت کئی دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔
’’ہمارے ملک میں امن و امان ہو گا تو باہر سے سرمایہ کاری بھی آئے گی۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ اُن کی اولین ترجیح معیشت کی بحالی ہو گی۔ اُنھوں نے منگل کی رات عمران خان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔