خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اقتصادی، توانائی اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے سے متعلق غیر مطمئن کارکردگی کے پیش نظر آئندہ انتخابات میں حکومتی اتحاد اب پنجاب میں نئے صوبے کے معاملے کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستانی پارلیمنٹ کا خصوصی کمیشن عنقریب ملک کے سیاسی مرکز پنجاب میں بہاولپور جنوبی پنجاب نامی نئے صوبے کے قیام کی تجویز پیش کرنے جارہا ہے مگر حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) شاید اس پر عمل درآمد ممکن نہ ہونے دے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پنجاب میں نئے صوبوں کے لیے کمیشن کی تشکیل صدر آصف علی زرداری کے قومی اسمبلی کی اسپیکر کو غیر آئینی خط پر کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت صرف اور صرف نئے کمیشن کے قیام سے متعلق حکومت سے بات چیت کرنے کو تیار ہے۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت مستقل بنیاد پر ایک ایسے کمیشن کا مطالبہ کرتی آئی ہے جوکہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں نئے صوبے بنانے کے لئے طریقہ کار اور مقاصد کا تعین کرے۔
’’کہا جاتا ہے کہ راجن پور سے لاہور بہت دور ہے تو پھر گوادر سے کوئٹہ بھی تو بہت دور ہے۔ پنجاب کی آبادی بہت زیادہ ہے تو اس کے باوجود وہاں کے انتظامی امور بھی تو دوسرے تمام صوبوں سے بہت بہتر ہیں۔‘‘
انہوں نے کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اسلام آباد میں بیٹھے تمام سفارشات مرتب کیں اور متعلقہ علاقوں کے مطالبوں اور خدشات کو نہیں سنا گیا۔
’’صدر نے ایک خط لکھا اور فوراً کمیشن بن گیا اور انہوں نے کہا دیا کہ یہ صوبہ ہے۔‘‘
گزشتہ سال پنجاب اسمبلی میں نئے صوبے بنانے سے متعلق متفقہ طور پر دو قراردادوں کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیشن کو ہدایت دی تھی جس نے حال ہی میں اپنی سفارشات مکمل کرلی ہیں جوکہ آئندہ کچھ دنوں میں قومی اسمبلی میں پیش کردی جائیں گی۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اقتصادی، توانائی اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے سے متعلق غیر مطمئن کارکردگی کے پیش نظر آئندہ انتخابات میں حکومتی اتحاد اب پنجاب میں نئے صوبے کے معاملے کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
مبصرین کے مطابق پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلم لیگ کا اس پر راضی ہونا لازمی ہے کیونکہ میاں نواز شریف کی جماعت پنجاب میں حکمران اور وہاں کی اسمبلی میں اکثریت رکھتی ہے۔
کمیشن کے رکن اور مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے حریف ن لیگ کے کمیشن سے متعلق اعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم ایل این پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کو اپنے صوبے میں اپنی سیاسی طاقت و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے اس کے رستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمیشن نے نئے صوبے کا نام بہاول پور جنوبی پنجاب تجویز کیا ہے اور اس صوبے کا دارالخلافہ بہاولپور ہوگا۔
کامل علی آغا نے بتایا کہ ملک کے شمال مغرب میں صوبہ ہزارہ بنانے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور کمیشن کی سفارشات میں بھی اس سے متعلق تجاویز دی گئی ہیں۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی کی جانب سے اس سے متعلق کوئی قرارداد سامنے نہیں آئی اس لیے وفاق نے اس پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پنجاب میں نئے صوبوں کے لیے کمیشن کی تشکیل صدر آصف علی زرداری کے قومی اسمبلی کی اسپیکر کو غیر آئینی خط پر کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت صرف اور صرف نئے کمیشن کے قیام سے متعلق حکومت سے بات چیت کرنے کو تیار ہے۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت مستقل بنیاد پر ایک ایسے کمیشن کا مطالبہ کرتی آئی ہے جوکہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں نئے صوبے بنانے کے لئے طریقہ کار اور مقاصد کا تعین کرے۔
’’کہا جاتا ہے کہ راجن پور سے لاہور بہت دور ہے تو پھر گوادر سے کوئٹہ بھی تو بہت دور ہے۔ پنجاب کی آبادی بہت زیادہ ہے تو اس کے باوجود وہاں کے انتظامی امور بھی تو دوسرے تمام صوبوں سے بہت بہتر ہیں۔‘‘
انہوں نے کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اسلام آباد میں بیٹھے تمام سفارشات مرتب کیں اور متعلقہ علاقوں کے مطالبوں اور خدشات کو نہیں سنا گیا۔
’’صدر نے ایک خط لکھا اور فوراً کمیشن بن گیا اور انہوں نے کہا دیا کہ یہ صوبہ ہے۔‘‘
گزشتہ سال پنجاب اسمبلی میں نئے صوبے بنانے سے متعلق متفقہ طور پر دو قراردادوں کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیشن کو ہدایت دی تھی جس نے حال ہی میں اپنی سفارشات مکمل کرلی ہیں جوکہ آئندہ کچھ دنوں میں قومی اسمبلی میں پیش کردی جائیں گی۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اقتصادی، توانائی اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے سے متعلق غیر مطمئن کارکردگی کے پیش نظر آئندہ انتخابات میں حکومتی اتحاد اب پنجاب میں نئے صوبے کے معاملے کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
مبصرین کے مطابق پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلم لیگ کا اس پر راضی ہونا لازمی ہے کیونکہ میاں نواز شریف کی جماعت پنجاب میں حکمران اور وہاں کی اسمبلی میں اکثریت رکھتی ہے۔
کمیشن کے رکن اور مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے حریف ن لیگ کے کمیشن سے متعلق اعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم ایل این پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کو اپنے صوبے میں اپنی سیاسی طاقت و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے اس کے رستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمیشن نے نئے صوبے کا نام بہاول پور جنوبی پنجاب تجویز کیا ہے اور اس صوبے کا دارالخلافہ بہاولپور ہوگا۔
کامل علی آغا نے بتایا کہ ملک کے شمال مغرب میں صوبہ ہزارہ بنانے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور کمیشن کی سفارشات میں بھی اس سے متعلق تجاویز دی گئی ہیں۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی کی جانب سے اس سے متعلق کوئی قرارداد سامنے نہیں آئی اس لیے وفاق نے اس پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔