نقل مکانی کرکے آنے والوں میں مسیحی برادری کے لوگ بھی شامل ہیں جن کی رہائش کے لیے بنوں میں اس برادری کے عمائدین نے ایک اسکول میں انتظام کیا ہے۔
پشاور / اسلام آباد —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے ساتھ ساتھ یہاں سے لوگوں کی محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق نقل مکانی کرنے والے تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگوں کا اندراج کیا جا چکا ہے جن میں سے اَسی ہزار سے زائد نے آپریشن کے آغاز کے بعد اپنا گھر چھوڑا۔ ان کے لیے بنوں کے قریب عارضی خیمہ بستیاں بھی قائم کر دی گئی ہیں
نقل مکانی کرکے آنے والوں میں مسیحی برادری کے لوگ بھی شامل ہیں جن کی رہائش کے لیے بنوں میں اس برادری کے عمائدین نے ایک اسکول میں انتظام کیا ہے۔
شہزاد مسیح نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "یہاں چرچ ہے کرسچیئن اسپتال ہے اور اسکول ہے تو ہم نے ان لوگوں کے لیے اسکول میں انتظام کیا ہے اور جتنی بھی ہماری استطاعت ہوگی ہم ان کی مدد کریں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کی شام تک تقریباً 70 کے لگ بھگ افراد آئے جب کہ اس سے پہلے بھی کچھ خاندان یہاں پہنچے تھے جن کے لیے انتظامات کیے جاچکے ہیں۔
ان کے بقول اب بھی کچھ خاندان شمالی وزیرستان میں ہی موجود ہیں۔
حکام نے شمالی وزیرستان سے لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کے لیے کرفیو میں تین روز تک کی نرمی کی تھی جو جمعہ کو ختم ہوئی۔
لیکن شدید گرم موسم اور ناکافی سہولت کا شکوہ کرتے ہوئے یہ لوگ کیمپوں کی بجائے اپنے رشتے داروں اور کرایوں کے گھروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
نقل مکانی کر کے آنے والوں میں عبدالقیوم داوڑ بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول شمالی وزیرستان سے منتقلی کا مرحلہ بہت دشوار ہے۔
" وہاں پر لڑائی ہو رہی ہے، تو جب نکلنے لگے تو گاڑیاں بھی کم ہیں کوئی گاڑی نہیں ملتی لوگ سڑکوں پر رات گزارتے رہے، بنوں سے بھی پتا کروایا کہ یہاں سے کوئی کرائے کی گاڑی مل جائے لیکن یہاں بھی سب پہلے ہی بُک ہو چکی تھیں۔"
انھوں نے سکیورٹی فورسز کی طرف سے گاڑیوں کی تلاشی کے عمل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ایک ایک گاڑی پر کئی کئی گھنٹے لگا دیتے ہیں۔"
صوبائی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ بندوبستی علاقوں میں منتقل ہونے والوں کے ماضی کے برعکس مکمل کوائف کا اندراج کیا جا رہا ہے اور ان کی پوری طرح چھان بین بھی کی جارہی ہے تاکہ کسی بھی مشتبہ شدت پسند کو نقل مکانی کرنے والوں کے روپ میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مقامی ادارے "فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی" کے ڈائریکٹر جنرل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات کی دوپہر بارہ بجے تک ایک لاکھ 41 ہزار سے زائد افراد کا اندراج کیا جا چکا تھا۔
انھوں نے خیمہ بستیوں میں سہولتوں کی کمی کی شکایت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ادارے وقت کے ساتھ ساتھ وہاں انتظامات مکمل کر رہے ہیں۔
سرکاری اندازوں کے مطابق نقل مکانی کرنے والے تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگوں کا اندراج کیا جا چکا ہے جن میں سے اَسی ہزار سے زائد نے آپریشن کے آغاز کے بعد اپنا گھر چھوڑا۔ ان کے لیے بنوں کے قریب عارضی خیمہ بستیاں بھی قائم کر دی گئی ہیں
نقل مکانی کرکے آنے والوں میں مسیحی برادری کے لوگ بھی شامل ہیں جن کی رہائش کے لیے بنوں میں اس برادری کے عمائدین نے ایک اسکول میں انتظام کیا ہے۔
شہزاد مسیح نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "یہاں چرچ ہے کرسچیئن اسپتال ہے اور اسکول ہے تو ہم نے ان لوگوں کے لیے اسکول میں انتظام کیا ہے اور جتنی بھی ہماری استطاعت ہوگی ہم ان کی مدد کریں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کی شام تک تقریباً 70 کے لگ بھگ افراد آئے جب کہ اس سے پہلے بھی کچھ خاندان یہاں پہنچے تھے جن کے لیے انتظامات کیے جاچکے ہیں۔
ان کے بقول اب بھی کچھ خاندان شمالی وزیرستان میں ہی موجود ہیں۔
حکام نے شمالی وزیرستان سے لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کے لیے کرفیو میں تین روز تک کی نرمی کی تھی جو جمعہ کو ختم ہوئی۔
لیکن شدید گرم موسم اور ناکافی سہولت کا شکوہ کرتے ہوئے یہ لوگ کیمپوں کی بجائے اپنے رشتے داروں اور کرایوں کے گھروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
نقل مکانی کر کے آنے والوں میں عبدالقیوم داوڑ بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول شمالی وزیرستان سے منتقلی کا مرحلہ بہت دشوار ہے۔
" وہاں پر لڑائی ہو رہی ہے، تو جب نکلنے لگے تو گاڑیاں بھی کم ہیں کوئی گاڑی نہیں ملتی لوگ سڑکوں پر رات گزارتے رہے، بنوں سے بھی پتا کروایا کہ یہاں سے کوئی کرائے کی گاڑی مل جائے لیکن یہاں بھی سب پہلے ہی بُک ہو چکی تھیں۔"
انھوں نے سکیورٹی فورسز کی طرف سے گاڑیوں کی تلاشی کے عمل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ایک ایک گاڑی پر کئی کئی گھنٹے لگا دیتے ہیں۔"
صوبائی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ بندوبستی علاقوں میں منتقل ہونے والوں کے ماضی کے برعکس مکمل کوائف کا اندراج کیا جا رہا ہے اور ان کی پوری طرح چھان بین بھی کی جارہی ہے تاکہ کسی بھی مشتبہ شدت پسند کو نقل مکانی کرنے والوں کے روپ میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مقامی ادارے "فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی" کے ڈائریکٹر جنرل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات کی دوپہر بارہ بجے تک ایک لاکھ 41 ہزار سے زائد افراد کا اندراج کیا جا چکا تھا۔
انھوں نے خیمہ بستیوں میں سہولتوں کی کمی کی شکایت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ادارے وقت کے ساتھ ساتھ وہاں انتظامات مکمل کر رہے ہیں۔