اس آہستہ روی کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی اور حکام کے بقول رمضان کے مہینے میں یہ عمل مزید سست ہو سکتا ہے۔
قبائلی علاقوں سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر سردار مہتاب احمد خان نے صحافیوں سے گفتگو میں قبائلیوں کی اپنے گھروں کو واپسی کے عمل میں سست روی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں بحالی کے کام کے ساتھ ساتھ لوگوں کی وہاں منتقلی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
گزشتہ سال پاکستانی فوج نے مقامی اور غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیر ستان میں ضرب عضب نامی سکیورٹی آپریشن شروع کیا تھا جس کی وجہ سے چھ لاکھ سے زائد افراد کو ان علاقوں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔
اس کے علاوہ ایک اور قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔
گورنر مہتاب احمد خان کا کہنا تھا کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ خیبر ایجنسی سے بے گھر ہونے والے افراد کو آئندہ دو ماہ میں ان کے علاقوں میں واپس پہنچا دیا جائے۔
نقکل مکانی کرنے والے ان افراد نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں پناہ لے رکھی تھی اور ان کی زیادہ تعداد سرکاری طور پر قائم کیے گئے کیمپوں کی بجائے اپنے رشتے داروں اور احباب کے پاس مقیم رہی۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے کو اپنے گھروں کو واپسی کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج ان کو اپنے گھروں کو واپس جانے پر تیار کرنا ہے اور بقول ان کے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اب مستقل طور پر خیبر پختونخواہ میں ہی قیام کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔
تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے گھروں کو واپسی کا عمل بغیر کسی جبر کے رضاکارانہ بنیادوں پر ہونا چاہییئے۔