اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے چھ ہزار سے زائد افراد سرحد پار کر کے افغانستان بھی پہنچے ہیں۔
پشاور —
قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ تین لاکھ ہو گئی ہے جب کہ بنوں کے قریب قائم عارضی کیمپوں میں اب بے گھر افراد نے آنا شروع کر دیا ہے۔
گزشتہ اتوار کو فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی شمالی وزیرستان سے لوگوں کا اںخلاء شروع ہو گیا تھا لیکن بدھ کو تین روز تک کرفیو میں نرمی کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے خیبرپختنواہ کے بندوبستی علاقوں کا رخ کیا۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ارشد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتہ کو دن بارہ بجے تک ساڑھے انیس ہزار خاندانوں کے دو لاکھ ترانوے ہزار سے زائد افراد کو رجسٹر کیا جا چکا تھا۔ بنوں کے قریب قائم کیمپ اور نقل مکانی کرنے والوں کے لیے کیے جانے والے انتظامات کے بارے میں کہنا تھا۔
"رجسٹریشن پوائنٹس پر خوراک بھی ہم دے رہے ہیں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جو لوگ پہنچیں گے ان کو ماہانہ راشن کا خرچ نقد ادا کیا جائے گا۔ میں خود ابھی کیمپ میں ہی موجود ہیں اور ابھی تک یہاں تقریباً 20 خاندان آ چکے ہیں اور مزید ابھی آ رہے ہیں۔"
ان تمام اقدامات کے باجود شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے اکثر لوگ سہولتوں کی کمی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
سعید خان داوڑ کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقے سے بنوں تک پہنچنا ہی
اپنی جگہ ایک دشوار مرحلہ ہے۔
"ہم نے پیدل راستہ طے کیا، کجھوری گیٹ سے سید گئی تک گاڑیاں کھڑی ہیں، بہت مشکل ہوئی ہمیں، وہاں (شمالی وزیرستان) ہم اپنا سارا سامان وغیرہ چھوڑ کر آئے صرف کپڑے لیے اور یہاں چلے آئے ہیں۔"
سعید خان حکومت کی طرف سے قائم کیمپ کی بجائے بنوں کے قریب ککی نامی علاقے میں اپنے ایک دوست کے پاس مقیم ہیں۔
نقل مکانی کر کے آنے والے بیشتر افراد عارضی کیمپ میں جانے کی بجائے اپنے دوست اور رشتہ داروں کے ہاں قیام کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول شدید گرم موسم میں کیمپ میں دستیاب سہولتیں ان کی مشکل زندگی کو مزید مشکل بنا دیں گی۔
ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے چھ ہزار سے زائد افراد سرحد پار کر کے افغانستان پہنچے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق مشرقی افغان صوبے خوست میں آنے والے 6452 قبائلیوں کی دیکھ بھال کے لیے عالمی ادارہ مقامی انتظامیہ کی مدد کر رہا ہے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ نقل مکانی کر کے افغانستان جانے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو پہلے ہی افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں مقیم تھے اور یہ عام حالات میں بھی سرحد کے آر پار آتے جاتے رہتے ہیں کیونکہ ان خاندانوں کے لوگ سرحد کے دونوں جانب آباد ہیں۔
گزشتہ اتوار کو فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی شمالی وزیرستان سے لوگوں کا اںخلاء شروع ہو گیا تھا لیکن بدھ کو تین روز تک کرفیو میں نرمی کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے خیبرپختنواہ کے بندوبستی علاقوں کا رخ کیا۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ارشد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتہ کو دن بارہ بجے تک ساڑھے انیس ہزار خاندانوں کے دو لاکھ ترانوے ہزار سے زائد افراد کو رجسٹر کیا جا چکا تھا۔ بنوں کے قریب قائم کیمپ اور نقل مکانی کرنے والوں کے لیے کیے جانے والے انتظامات کے بارے میں کہنا تھا۔
"رجسٹریشن پوائنٹس پر خوراک بھی ہم دے رہے ہیں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جو لوگ پہنچیں گے ان کو ماہانہ راشن کا خرچ نقد ادا کیا جائے گا۔ میں خود ابھی کیمپ میں ہی موجود ہیں اور ابھی تک یہاں تقریباً 20 خاندان آ چکے ہیں اور مزید ابھی آ رہے ہیں۔"
ان تمام اقدامات کے باجود شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے اکثر لوگ سہولتوں کی کمی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
سعید خان داوڑ کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقے سے بنوں تک پہنچنا ہی
اپنی جگہ ایک دشوار مرحلہ ہے۔
"ہم نے پیدل راستہ طے کیا، کجھوری گیٹ سے سید گئی تک گاڑیاں کھڑی ہیں، بہت مشکل ہوئی ہمیں، وہاں (شمالی وزیرستان) ہم اپنا سارا سامان وغیرہ چھوڑ کر آئے صرف کپڑے لیے اور یہاں چلے آئے ہیں۔"
سعید خان حکومت کی طرف سے قائم کیمپ کی بجائے بنوں کے قریب ککی نامی علاقے میں اپنے ایک دوست کے پاس مقیم ہیں۔
نقل مکانی کر کے آنے والے بیشتر افراد عارضی کیمپ میں جانے کی بجائے اپنے دوست اور رشتہ داروں کے ہاں قیام کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول شدید گرم موسم میں کیمپ میں دستیاب سہولتیں ان کی مشکل زندگی کو مزید مشکل بنا دیں گی۔
ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے چھ ہزار سے زائد افراد سرحد پار کر کے افغانستان پہنچے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق مشرقی افغان صوبے خوست میں آنے والے 6452 قبائلیوں کی دیکھ بھال کے لیے عالمی ادارہ مقامی انتظامیہ کی مدد کر رہا ہے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ نقل مکانی کر کے افغانستان جانے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو پہلے ہی افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں مقیم تھے اور یہ عام حالات میں بھی سرحد کے آر پار آتے جاتے رہتے ہیں کیونکہ ان خاندانوں کے لوگ سرحد کے دونوں جانب آباد ہیں۔