شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے عالمی ادارہ خوراک نے بھی امداد فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔
اسلام آباد —
قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستانی فوج کی بھرپور کارروائی کے ساتھ ساتھ یہاں سے مقامی آبادی کے انخلا کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔
گزشتہ اتوار کو شروع ہونے والی فوجی کارروائی میں سکیورٹی فورسز نے اب تک ازبک جنگجوؤں سمیت اڑھائی سو سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ ان کے متعدد ٹھکانوں، مواصلاتی مراکز اور اسلحے کے ذخیرے بھی تباہ کر دیے ہیں۔
اب تک شمالی وزیرستان میں فوج نے لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کارروائی کی ہے جسے دفاعی مبصرین ایک اچھی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فوج کے پاس انٹیلی جنس تھی کہ شدت پسندوں کے ٹھکانے کہاں کہاں ہیں تو انھوں نے پہلے اسے نشانہ بنایا۔
"اس کے بعد فوج نے یہ بھی کیا کہ ایسی پوزیشنز لے لی ہیں کہ جو شدت پسند ہیں وہ باہر نہ جاسکیں، پھر یہ نقل مکانی بھی بڑی ضروری تھی کہ جو کہ آپ نے دیکھا بڑی حد تک ہو گئی ہے اور جیسے ہی یہ مکمل ہوگی تو پھر فوج زمینی کارروائی بھی شروع کر دے گی۔"
ادھر شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی خیبرپختونخواہ کے بندوبستی علاقوں میں آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اتوار کو نقل مکانی کرنے والے ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد کی رجسٹریشن مکمل کر لی گئی۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے بنوں کے قریب ان افراد کے لیے کیمپ تو قائم کیا گیا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اب بھی اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے ہاں رہنے کو ترجیح دی رہی ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سے محمد سعید اپنے خاندان کے 32 افراد کے ہمراہ نقل مکانی کرکے بنوں کے مضافاتی علاقے ککی پہنچے ہیں۔ انھوں نے کیمپ میں جانے کی بجائے اپنے دوست کے ہاں قیام کو کیوں ترجیح دی اس بارے میں سعید کا کہنا تھا۔
"ہم قبائلی لوگ ہیں ہمارا پردے کا بندوبست ہوتا ہے اپنی تشکیل ہوتی ہے وہاں (کیمپ) میں ایسا نہیں۔ پھر جہاں ٹینٹ لگائے ہیں وہاں ایک بھی درخت نہیں، سخت گرمی ہے۔"
کیمپ کا انتظام و انصرام چلانے والے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف یہاں آنے والوں کو خوراک فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان لوگوں کو ماہانہ خرچ کےلیے رقم بھی دی جارہی ہے۔
اسی اثناء میں عالمی ادارہ خوراک "ڈبلیو ایچ او" نے بھی شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کو راشن کی فراہمی میں اتوار سے حکومتی اداروں کی معاونت شروع کر دی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ترجمان امجد جمال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا ادارہ پہلے ہی دیگر قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے دس لاکھ لوگوں کو غذائی امداد فراہم کر رہا ہے اور اب شمالی وزیرستان سے آنے والوں کا بھی یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
"دس ہزار خاندانوں کے لیے ہمارے پاس ڈیرا اسمٰعیل خان میں انتظام ہے اور اس کے علاوہ پشاور میں بھی تقریباً پچاس ہزار فیملیز کے لیے راشن موجود ہے۔ تو ابتدائی طور پر حکومت کی درخواست ہے ایف ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر ہم نے وہاں خوراک بھیجی ہے۔ ابھی اس وقت بنوں میں اسپورٹس کمپلیکس میں خوراک تقسیم ہو رہی ہے۔ ہمارا ٹارگٹ ہے آج پانچ سو سے لے کر ایک ہزار خاندانوں تک ہم خوراک تقسیم کر دیں گے۔ اس کے علاوہ بکا خیل کا کیمپ ہے وہاں پر بھی جو فیملی رجسٹر ہوئی ہیں ان کو بھی ہم غذائی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن پوائنٹ پر آنے والے افراد کو اس بارے میں بھی آگاہی فراہم کی جارہی ہے کہ وہ کن کن مقامات سے راشن حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب بھی بہت سے لوگ اس متعلق معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اس امداد سے استفادہ نہیں کر پا رہے لہذا ان کے بقول اس متعلق آگاہی مہم بھی شروع کی جارہی ہے۔
گزشتہ اتوار کو شروع ہونے والی فوجی کارروائی میں سکیورٹی فورسز نے اب تک ازبک جنگجوؤں سمیت اڑھائی سو سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ ان کے متعدد ٹھکانوں، مواصلاتی مراکز اور اسلحے کے ذخیرے بھی تباہ کر دیے ہیں۔
اب تک شمالی وزیرستان میں فوج نے لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کارروائی کی ہے جسے دفاعی مبصرین ایک اچھی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فوج کے پاس انٹیلی جنس تھی کہ شدت پسندوں کے ٹھکانے کہاں کہاں ہیں تو انھوں نے پہلے اسے نشانہ بنایا۔
"اس کے بعد فوج نے یہ بھی کیا کہ ایسی پوزیشنز لے لی ہیں کہ جو شدت پسند ہیں وہ باہر نہ جاسکیں، پھر یہ نقل مکانی بھی بڑی ضروری تھی کہ جو کہ آپ نے دیکھا بڑی حد تک ہو گئی ہے اور جیسے ہی یہ مکمل ہوگی تو پھر فوج زمینی کارروائی بھی شروع کر دے گی۔"
ادھر شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی خیبرپختونخواہ کے بندوبستی علاقوں میں آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اتوار کو نقل مکانی کرنے والے ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد کی رجسٹریشن مکمل کر لی گئی۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے بنوں کے قریب ان افراد کے لیے کیمپ تو قائم کیا گیا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اب بھی اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے ہاں رہنے کو ترجیح دی رہی ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سے محمد سعید اپنے خاندان کے 32 افراد کے ہمراہ نقل مکانی کرکے بنوں کے مضافاتی علاقے ککی پہنچے ہیں۔ انھوں نے کیمپ میں جانے کی بجائے اپنے دوست کے ہاں قیام کو کیوں ترجیح دی اس بارے میں سعید کا کہنا تھا۔
"ہم قبائلی لوگ ہیں ہمارا پردے کا بندوبست ہوتا ہے اپنی تشکیل ہوتی ہے وہاں (کیمپ) میں ایسا نہیں۔ پھر جہاں ٹینٹ لگائے ہیں وہاں ایک بھی درخت نہیں، سخت گرمی ہے۔"
کیمپ کا انتظام و انصرام چلانے والے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف یہاں آنے والوں کو خوراک فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان لوگوں کو ماہانہ خرچ کےلیے رقم بھی دی جارہی ہے۔
اسی اثناء میں عالمی ادارہ خوراک "ڈبلیو ایچ او" نے بھی شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کو راشن کی فراہمی میں اتوار سے حکومتی اداروں کی معاونت شروع کر دی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ترجمان امجد جمال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا ادارہ پہلے ہی دیگر قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے دس لاکھ لوگوں کو غذائی امداد فراہم کر رہا ہے اور اب شمالی وزیرستان سے آنے والوں کا بھی یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
"دس ہزار خاندانوں کے لیے ہمارے پاس ڈیرا اسمٰعیل خان میں انتظام ہے اور اس کے علاوہ پشاور میں بھی تقریباً پچاس ہزار فیملیز کے لیے راشن موجود ہے۔ تو ابتدائی طور پر حکومت کی درخواست ہے ایف ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر ہم نے وہاں خوراک بھیجی ہے۔ ابھی اس وقت بنوں میں اسپورٹس کمپلیکس میں خوراک تقسیم ہو رہی ہے۔ ہمارا ٹارگٹ ہے آج پانچ سو سے لے کر ایک ہزار خاندانوں تک ہم خوراک تقسیم کر دیں گے۔ اس کے علاوہ بکا خیل کا کیمپ ہے وہاں پر بھی جو فیملی رجسٹر ہوئی ہیں ان کو بھی ہم غذائی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن پوائنٹ پر آنے والے افراد کو اس بارے میں بھی آگاہی فراہم کی جارہی ہے کہ وہ کن کن مقامات سے راشن حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب بھی بہت سے لوگ اس متعلق معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اس امداد سے استفادہ نہیں کر پا رہے لہذا ان کے بقول اس متعلق آگاہی مہم بھی شروع کی جارہی ہے۔