پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کا کہنا ہے کہ اُنھیں خوراک کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اُدھر ماہ رمضان کے آغاز پر صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے اپنے الگ الگ پیغامات میں پوری قوم پر زور دیا کہ بے گھر خاندانوں کی دل کھول کر امداد کی جائے۔
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی اکثریت صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع میں اپنے عزیز و اقارب یا کرائے کے گھروں میں مقیم ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بھی کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا انخلا اس قدر تیزی سے ہوا کہ وہ شروع کے دنوں میں خوراک کی فراہمی میں کچھ مشکلات پیش آئیں۔
’’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اُن کو وہ سہولت دیں جو اُنھیں اپنے گھروں میں دستیاب تھی۔۔۔۔ ہفتہ، دس دنوں میں آپ دیکھیں کہ سب لوگ مطمیئن ہو جائیں گے۔‘‘
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے عالم زیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ راشن کی تقیسم کے دوران لوگوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
راشن کی تقسیم کو بہتر بنانے کے لیے فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر حسیب احسن کہتے ہیں کہ بعض دیگر علاقوں میں بھی خوراک کی تقسیم کے مراکز قائم کیے جا رہے ہیں جس سے اُن کے بقول صورت حال میں بہتری آئے گی۔
’’ابھی ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں بھی یہ مراکز قائم ہو چکے ہیں، اور کچھ ہو رہے ہیں اور کرم ایجنسی میں کام کیا گیا ہے۔۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ کیا جائے گا اور چونکہ یہ ایمرجنسی تھی تو پہلی بار خوراک کی تقسیم کے موقع پر رش تھا لیکن پھر جب دوسری بار ان کو خوراک ملے گی تو یہ رش آپ کو دیکھنے میں نہیں ملے گا۔‘‘
شمالی وزیرستان کے پہاڑی علاقے موسم گرما میں نسبتا کم گرم ہوتے ہیں لیکن وہاں موجود دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے بعد مجبوراً ان لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔
صدر ممنون حسین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور حکومت ان کے خاتمے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔