پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں جمعہ کو ایک مسجد میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 36 ہو گئی ہے جب کہ ہفتے کو علاقے میں فضا سوگوار رہی۔
مہمند ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ حسیب الرحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تحصیل انبار میں کرفیو نافذ ہے اور سرچ آپریشن بھی جاری ہے لیکن تاحال اس میں گرفتاریوں سے متعلق اُنھوں نے تصدیق نہیں کی۔
’’صرف اُسی ایک تحصیل میں کرفیو نافذ ہے، مختلف مقامات پر دعائیں کی جا رہی ہیں۔ مزید ایسے کسی واقعہ سے بچنے کے لیے کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے جو جلد ہی ختم کر دیا جائے گا۔"
مقامی قبائلیوں کا کہنا ہے کہ مسجد پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مارے جانے والوں میں زیادہ تر تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔
اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ حسیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ عموماً نوجوان اور بچے نماز کی ادائیگی کے دوران پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور مہمند ایجنسی میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا بھی آخری صفوں ہی میں ہوا۔
زخمیوں میں سے اب بھی بہت سے قریبی قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں سے کچھ کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
مقامی افراد کے مطابق دھماکے سے مسجد کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔
شہری علاقوں کے برعکس قبائلی علاقوں کے دور دراز حصوں میں قائم مساجد میں عموماً سکیورٹی کا بندوبست نہیں ہوتا اور بظاہر اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خودکش حملہ آور مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
اس خودکش حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ’جماعت الاحرار‘ گروپ نے قبول کی تھی اور اس تنظیم کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے نام بھیجے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ مہمند ایجنسی کے امن لشکر نے ماضی میں اُن کے ساتھیوں کو ہلاک اور بعض کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا تھا۔
مہمند ایجنسی کے جس علاقے میں مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا وہ افغان سرحد کے قریب واقع ہے۔
اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ حسیب الرحمٰن کے مطابق ہفتہ کو گورنر خیبر پختونخواہ کے علاوہ کور کمانڈر پشاور اور آئی جی ایف سی نے بھی مہمند ایجنسی کی تحصل انبار کا دورہ کیا۔
’’یہاں کے قبائلیوں کے حوصلے بلند ہیں، کیوں کہ اُنھوں نے پہلے بھی دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں۔ اُن کا ابھی بھی کہنا ہے کہ وہ اپنی مساجد، گھروں اور راستوں کی حفاظت خود کریں گے۔‘‘
تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ کئی دیگر شدت پسند گروہ بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بہت سرگرم رہے، لیکن 2014 میں پاکستانی فوج کی طرف سے شروع کیے گئے آپریشن ’ضرب عضب‘ کے بعد عسکری حکام کے مطابق دہشت گردوں کا ’نیٹ ورک‘ یا ڈھانچہ توڑ دیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے مطابق جون 2014ء کے بعد سے اب تک قبائلی علاقوں میں کی گئی کارروائیوں میں لگ بھگ 3500 شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جب کہ 500 سے زائد فوجی بھی آپریشن کے دوران مارے گئے۔
اگرچہ آپریشن ’ضرب عضب‘ میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو ملنے والی کامیابیوں کے باعث ملک میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے لیکن جب بھی شدت پسندوں کو موقع ملتا ہے وہ اپنی پرتشدد کارروائیوں کا موقع ضائع نہیں کرتے۔
اگست کے اوائل میں کوئٹہ میں ایک مہلک خودکش بم حملے میں لگ بھگ 55 وکیلوں سمیت 70 سے زائد افراد مارے گئے تھے جب کہ رواں ماہ صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع مردان کی کچہری میں خودکش حملے میں بھی وکیلوں سمیت کم از کم 13 افراد مارے گئے تھے۔
ان حملوں اور اب مہمند ایجنسی کی مسجد میں خودکش دھماکے کے تناظر میں ناقدین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے مہلک حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔