امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوجی امداد روکنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور یہ پہلو نظر میں رکھا گیا ہے کہ ایک جوہری ریاست کے خلاف ایسے اقدام کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن میں تھنک ٹینک، ’فیڈرلسٹ سوسائٹی‘ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ خدشہ موجود ہے کہ پاکستان کی حکومت پر دہشت گرد قبضہ کرسکتے ہیں اور جوہری ہتھیار ان کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں۔
بولٹن نے بتایا کہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کے دورے میں واضح کیا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا مکمل تعاون چاہتا ہے جس کا وہ وعدہ کر چکا ہے۔ امریکا کے لیے یہ معاملہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے پاکستان کی اپنی بقا کو بھی خطرہ ہے۔
جان بولٹن نے واضح الفاظ میں سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کیا پاکستان ان کی بات سن رہا ہے؟
سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی نے ’وائس آف امریکا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو کوئی خطرہ نہیں۔ ایٹم بم کسی الماری میں نہیں رکھا ہوتا کہ کوئی بھی آکر انھیں چھین سکتا ہے۔ پاکستان کے 99 فیصد شہری طالبان کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتے۔ کیا امریکا کو ان سے زیادہ پاکستان کی فکر ہوسکتی ہے؟ ملک کی معاشی صورتحال ضرور خراب ہے لیکن وہ ڈیڑھ دو سال میں ٹھیک ہوجائے گی‘‘۔
سینئر تجزیہ کار عامر احمد خان کہتے ہیں کہ ہر سوچ کی ایک فطری میعاد ہوتی ہے۔ ’’پاکستان کے اندر ایک سوچ ہے کہ چونکہ یہ ایک جوہری طاقت ہے اس لیے دنیا اس سے منہ نہیں موڑ سکتی یا ایک حد سے زیادہ سختی نہیں کرسکتی۔ یہ سوچ مشرف دور سے اب تک موجود ہے۔ پاکستان کی نیت اور کردار کے بارے میں جو شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہے۔ پاکستان کو اب یہ سمجھ جانا چاہیے کہ اس سوچ کی مدت اب ختم ہوگئی ہے۔ اب عالمی برادری کی بات ماننا پڑے گی ورنہ وہ پاکستان سے فاصلہ برقرار رکھے گی‘‘۔
ممتاز دانشور مبارک حیدر کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گردوں کی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں تک رسائی کا خطرہ حقیقی ہے۔ صرف امریکا یا مغرب نہیں، چین بھی اس خدشے میں ان کا شریک ہے۔ کبھی یہ خطرہ بڑھا تو عالمی برادری اسے روکنے کے لیے براہ راست اقدام کرے گی اور بڑھے ہوئے ناخن تراش دے گی۔ خدانخواستہ پاکستان کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ فیصلہ کن وقت آگیا ہے اور پاکستان کو اپنی ترجیحات پر دوبارہ غور کرنا پڑے گا‘‘۔
غیر جانب دار تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی برادری کے اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر خدشات پر دھیان نہ دیا تو اندرونی اور بیرونی خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔