اخبار نے اس اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان نے ایک موقر امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے اسلام آباد میں بیورو چیف کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
اخبار کے مطابق امریکی صحافی ڈیکلن والش کو حکومت کی طرف سے دو جملوں پر مشتمل ایک خط کے ذریعے یہ حکم جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’’آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی غیر ضروری سرگرمیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کا ویزہ منسوخ کیا جاتا ہے، لہذا آپ کو 72 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔‘‘
اخبار نے اس اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اخبار کی ایک خاتون ترجمان کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو ایڈیٹر جِل ابرامسن نے پاکستانی وزیرداخلہ کو ایک خط تحریر کیا ہے۔’’ ہم مودبانہ درخواست کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے اور مسٹر والش کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دی جائے۔‘‘
پاکستان کی طرف سے یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ہفتہ کو ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے اور انتخابات کی نگرانی کے لیے دنیا بھر سے سینکڑوں مبصرین اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے پاکستان میں موجود ہیں۔
39 سالہ مسٹر والش 2012ء میں نیویارک ٹائمز سے وابستہ ہوئے تھے اس سے قبل وہ برطانوی اخبار گارڈین کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ والش تقریباً نو سال تک پاکستان میں کام کرتے رہے ہیں اور وہ زیادہ تر یہاں سیاسی صورتحال، عسکریت پسندی اور پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں نامہ نگاری کرتے رہے ہیں۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جنرلسٹس ’سی پی جے‘ نے پاکستان کی نگراں حکومت سے کہا کہ ڈیکلن والشن کو ملک چھوڑنے کا حکم واپس لیا جائے۔
سی پی جے کے ایشا پروگرام کوارڈینیڑ باب ڈیڈز نے کہا ہے کہ ’’ڈیکلن والش کو بے دخل کرنے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہدیدار آزاد میڈیا کوریج سے کتنے خائف ہیں۔‘‘
اخبار کے مطابق امریکی صحافی ڈیکلن والش کو حکومت کی طرف سے دو جملوں پر مشتمل ایک خط کے ذریعے یہ حکم جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’’آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی غیر ضروری سرگرمیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کا ویزہ منسوخ کیا جاتا ہے، لہذا آپ کو 72 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔‘‘
اخبار نے اس اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اخبار کی ایک خاتون ترجمان کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو ایڈیٹر جِل ابرامسن نے پاکستانی وزیرداخلہ کو ایک خط تحریر کیا ہے۔’’ ہم مودبانہ درخواست کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے اور مسٹر والش کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دی جائے۔‘‘
پاکستان کی طرف سے یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ہفتہ کو ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے اور انتخابات کی نگرانی کے لیے دنیا بھر سے سینکڑوں مبصرین اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے پاکستان میں موجود ہیں۔
39 سالہ مسٹر والش 2012ء میں نیویارک ٹائمز سے وابستہ ہوئے تھے اس سے قبل وہ برطانوی اخبار گارڈین کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ والش تقریباً نو سال تک پاکستان میں کام کرتے رہے ہیں اور وہ زیادہ تر یہاں سیاسی صورتحال، عسکریت پسندی اور پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں نامہ نگاری کرتے رہے ہیں۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جنرلسٹس ’سی پی جے‘ نے پاکستان کی نگراں حکومت سے کہا کہ ڈیکلن والشن کو ملک چھوڑنے کا حکم واپس لیا جائے۔
سی پی جے کے ایشا پروگرام کوارڈینیڑ باب ڈیڈز نے کہا ہے کہ ’’ڈیکلن والش کو بے دخل کرنے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہدیدار آزاد میڈیا کوریج سے کتنے خائف ہیں۔‘‘